قربانی کے فضائل و مسائل سے متعلق اس مضمون میں آپ قربانی کے مختصر فضائل کا خلاصہ ، قربانی کی تاریخ ، مقاصد و حکمتیں اور حکم و نصاب پڑھ سکتے ہیں۔
قربانی کے فضائل کا خلاصہ
قربانی دوزخ سے آڑ بنے گی (طبرانی) قربانی 10 ذی الحجہ کے دن اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل ہے (ترمذی) قربانی کے جانور کے غیر مفید اعضاء مثلا سینگ کھر پر بھی اجر ملے گا(ترمذی) قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں خاص درجہ میں پہنچ جاتا ہے (ترمذی) قربانی کے جانور کے ہر بال ہر اون کے بدلے میں نیکی ہے (احمد) قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر گرتے ہی تمام گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے (حاکم) قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اور دل کے تقوی کی نشانی ہے (سورة الحج) قربانی اس دنیا میں مقبول اور مردود انسانوں کے درمیان فرق کرنے کی سب سے پہلی نشانی کے طور پر قائم کی گئی تھی (سورہ مائدہ) رسول اللہ نے دس سالہ مدنی قیام کے دوران ہر سال قربانی فرمائی (ترمذی) حجة الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی فرمائی (بخاری) جو وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے ، اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی ناپسند فرمایا (ابن ماجہ)
قربانی کی تاریخ (ابتداء)
قرب الہٰی کے حصول کے لیے حلال جانور کو ذبح کرنے کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے شروع ہوئی۔ یہ سب سے پہلی قربانی تھی ، چنانچہ سورة المائدہ میں مذکور ہے کہ دونوں نے اللہ تعالی کے حضور قربانی پیش کی ،ہابیل نے عمدہ دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا ۔اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آ کر قربانی کو کھا لیتی، چنانچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھا کیا اورقابیل کی قربانی وہیں پڑی رہ گئی، یوں وہ قبولیت سے محروم ہو گئی۔
اسی طرح قربانی کا یہ عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا، البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے ، ان ہی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو عید الاضحی کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم واقعے کا ما حصل : جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنا بیٹا اسماعیل اللہ تعالی کی محبت میں قربان کیا جائے، باپ بیٹے دونوں نے بے چوں و چراں اپنے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ اللہ کے لاڈلے خلیل نے اپنے لاڈلے ذبیح کی گردن پر چھری پھیرنے کی بھرپور کوشش کی مگر اُدھر چھری کو حکم تھا کہ خبردار ! ذبح نہ ہونے پائے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے، اللہ نے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ کی حفاظت فرمائی اور ایک دنبہ ان کا فدیہ بنا دیا۔
قربانی کا فلسفہ ، مقصد ، حکمتیں اور دروس
قربانی کا لفظ قربان سے ہے یعنی وہ عمل جس کی بدولت انسان اپنے رب کریم کا قرب پانے کی کوشش کرے، قربانی کا مقصد بھی یہ ہے کہ مسلمان کو ہمیشہ رب تعالی کا تقرب پانے اور اس کے ہاں نزدیکی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی قیمت چکانی پڑے۔
قربانی یاد دلاتی ہے کہ حق تو یہ ہے کہ ہم اپنی جان اور اپنی اولاد اس مالک حقیقی پر سچ مچ قربان کر دیں مگر یہ اس کی شانِ رحمت ہے کہ جان کے بدلے جانور قبول کر لیتا ہے اور وہ بھی تب جب وسعت اور گنجائش موجود ہو۔
قربانی اسلام کی حقیقت سمجھاتی ہے، اسلام کی حقیقت ہے اللہ اور اس کے رسول کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا خواہ حکم بظاہر ہے ہلکا ہو یا بھاری، سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، اسلام کا مطلب اپنے آپ کو سپرد کر دینا ہے۔
قربانی کا عمل سکھاتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ خواہشات، مفادات، جذبات، احساسات جیسی محبوب ترین اشیاء سمیت ہر اس چیز کو قربان کر دیتا ہے جو اللہ کے امر کے سامنے آئے ، یہ ممکن نہیں کہ ایک اصلی مسلمان ان چیزوں کو تو بچائے اور اللہ کا حکم قربان کر دے۔
مسلمان کو اللہ کی فرمانبرداری میں ہر قسم کی قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے خواہ وہ قربانی حقیقت میں اپنی جان یا اپنی اولاد کو قربان کرنے کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔
قربانی سکھاتی ہے کہ ہمیں بھی اپنے آپ کو ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک کرنا چاہیے اور اپنے اندر کے جانور کی گردن پر چھری پھیرنی چاہیے، اپنی مجلس کے شرکاء کے لیے صالحین کا انتخاب کرنا چاہیے، اپنا مال پاکیزہ طریقے سے کمانا چاہیے اور اس میں غرباء اور و مساکین کا بھی حصہ رکھنا چاہیے۔
قربانی کا حکم اور نصاب
قربانی واجب ہے یا نہیں ؟ اسے جاننے کے لیے پانچ چیزوں کو دیکھا جاتا ہے۔ چار تو وہی زکات والی یعنی سونا ، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت اور پانچویں چیز ”ضرورت سے زائد اشیاء “۔
تو جس عاقل بالغ مقیم مسلمان کے پاس ذوالحج مہینے کی دسویں تاریخ یا گیارویں یا بارویں کو ساڑھے سات تولے سونا ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔
یا سونا تو بالکل نہ ہو لیکن ساڑھے باون تولے چاندی ہو تو اس پر بھی قربانی کرنا واجب ہے۔
لیکن اگر نہ سونا پورے سات تولے ہو اور نہ ہی چاندی ساڑھے باون تولے ہو بلکہ 1 : سات تولے سے کم صرف سونا ہو ، باقی مذکورہ چار چیزوں میں سے کچھ بھی نہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ 2 : ساڑھے باون تولے سے کم صرف چاندی ہو ، ساتھ دیگر چار اموال میں سے کچھ بھی نہ ہو تو بھی قربانی واجب نہیں۔
3 : اس کم سونے کے ساتھ ساتھ بقیہ چار چیزوں میں سے بھی کوئی ایک موجود ہو ، یا دو چیزیں ، یا تین ، یا چاروں میں سے کچھ موجود ہوں تو پھر ان تمام موجود اشیاء کی قیمت کو ملا کر دیکھیں گے ، اگر ان کی ٹوٹل قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ گئی تو قربانی واجب ہے ، ورنہ نہیں۔
اسی طرح اگر اس کم مقدار چاندی کے ساتھ ساتھ ان باقی چار چیزوں میں سے بھی کوئی ایک چیز یا دو یا تین یا چاروں موجود ہوں تو بھی دیکھا جائے گا کہ ان چیزوں کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو قربانی واجب ہے ، کم ہے تو واجب نہیں۔
اسی طرح اگر سونا اور چاندی بالکل نہ ہوں بلکہ باقی تین چیزوں میں سے کوئی ایک یا دو یا تینوں موجود ہوں تو بھی ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جائے گا۔
الغرض : اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو اور سات تولے ہو تو اس پر قربانی کرنا واجب ہے ، کم ہو تو واجب نہیں۔ صرف چاندی ہو اور ساڑھے باون تولے ہو تو قربانی واجب ہے ، کم ہو تو واجب نہیں ۔ باقی تمام صورتوں میں موجود اشیاء کی قیمت کا ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت سے موازنہ کیا جائے گا ، برابر یا زیادہ ہے تو قربانی واجب ہے ، کم ہے تو واجب نہیں۔
یہ آخری تمام صورتیں جن میں قربانی کے واجب ہونے یا نہ ہونے کا معیار ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو بنایا گیا ہے ، یہ اکثر علماء کی تحقیق ہے ، آج کل بعض علماء ان صورتوں میں سونے کے نصاب کو معیار بناتے ہیں ، یعنی ان تمام چیزوں کی مجموعی قیمت سات تولے سونے کی قیمت کے برابر ہوئی تو قربانی واجب ہو گی ، سات تولے سونے کی قیمت سے کم ہوئی تو واجب نہیں ۔
یاد رہے کہ اس معیار کے مطابق اکثر لوگوں پر قربانی واجب نہیں رہتی اور یہ کہ بعض علماء کے اس قول کو عام مفتیانِ کرام کی طرف سے قبول نہیں کیا گیا اور ظاہر ہے کہ احتیاط بھی اکثر علماء کے قول میں ہے یعنی چاندی کے نصاب کا معیار قرار دیا جانا۔
سوال : کیا یہ درست ہے کہ جس شخص پر زکات فرض ہے اس پر قربانی واجب ہے ، جس پر زکات فرض نہیں اس پر قربانی بھی واجب نہیں؟
جواب : ایسا نہیں ہے ، کیوں کہ زکات اور قربانی کے نصاب میں دو فرق ہیں ، ایک تو یہ کہ زکات میں چار اشیاء دیکھی جاتی ہیں (سونا چاندی نقد رقم اور مالِ تجارت) جبکہ قربانی میں ان کے ساتھ پانچویں چیز یعنی ضرورت سے زائد سامان بھی دیکھا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ زکات میں مالکِ نصاب ہونے کے پورے ایک اسلامی سال بعد فرضیت آتی ہے جبکہ قربانی میں سال گزرنا شرط نہیں۔
لہذا ایک آدمی کے پاس سونا ، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت ملانے کے بعد بھی ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت برابر مالیت نہیں بنتی ، لیکن ضرورت سے زائد سامان ملانے سے بن جاتی ہے تو اس پر زکات تو فرض نہیں ، لیکن قربانی اور صدقہ فطر واجب ہے۔
اسی طرح ایک غریب آدمی کے پاس بڑی عید سے کچھ دن پہلے یا بڑی عید کے پہلے دن یا دوسرے دن یا تیسرے دن ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت برابر مالیت آ گئی ، تو اس پر قربانی تو واجب ہے لیکن ابھی زکات فرض نہیں ، کیوں کہ زکات میں سال گزرنا ضروری ہے۔
اب دیکھیں ان دونوں مسئلوں میں زکات فرض نہیں ، مگر قربانی واجب ہے۔ معلوم ہوا کہ سوال میں ذکر کردہ کلیہ درست نہیں۔
مفتی محمد عثمان
کیا چاہت فتح علی خان کی موسیقی حلال ہے ؟ فتویٰ کی حقیقت
اپنے مسائل کا شرعی حل جاننے کے لیے اس ایڈریس پر ایک میل کریں
urdub9q@gmail.com
Pingback: چاہت فتح علی خان کی موسیقی حلال ہے ؟