معروف عالم دین مفتی طارق مسعود ایک بار پھر تمام مکاتب فکر کے کچھ علمائے کرام اور ان کے فالورز کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ دراصل مفتی طارق مسعود نے قرآن حکیم کی حفاظت پر کینیڈا میں بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کے موجودہ عثمانی رسم الخط کے حوالے سے متنازعہ گفتگو کی تھی۔
گفتگو کے وائرل ہونے کے بعد کئی اہلِ علم قرآن مجید کے عثمانی رسم الخط اور عربی گرامر کے مابین تعلق پر اپنی تحقیقات پیش کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔
عثمانی رسم الخط ہے کیا ؟ اس کے اصول و قواعد کیا ہیں اور خصوصیات کیا ہیں ؟ ذیل میں آپ ان ہی سوالات کے جواب دیتی تحریر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
رسمِ عثمانی کیا ہے؟
یہاں ”رسم“ سے مراد خط ہے ، ”عثمانی“ حضرت عثمان کی طرف نسبت ہے، اس سے مراد قرآن کریم کا وہ طرزِ کتابت ہے جس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف شریف لکھوایا تھا۔
شرعی حیثیت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جس طرزِ کتابت میں مصحف لکھوایا ہے، اسی طرز پر قرآن کریم لکھنا واجب ہے یا مستحسن ؟ اس کے خلاف کسی اور طرز کتابت میں لکھنا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں علمائے کرام کے تین فریق ہیں
فریق اول
ان حضرات کی رائے یہ ہے کہ رسم عثمانی توقیفی ہے اور اس کے مطابق قرآن کریم لکھنا واجب ہے، اس کے خلاف لکھنا شرعاً جائز نہیں۔ امام مالک، امام احمد بن حنبل اور حافظ ابو بکر بیہقی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔ حافظ ابو عمر ودانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کے مخالف کسی کی رائے نہیں ہے۔ امام برہان الدین صدر الشریعہ ابن مازہ رحمہ اللہ نے قرآن کریم کو رسم عثمانی کے مطابق لکھنے پر وجوب نقل کیا ہے۔ گویا مذاہب اربعہ میں رسم عثمانی کے مطابق قرآن کریم لکھنا واجب ہے۔
دلیل
یہ حضرات فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس رسم میں قرآن کریم لکھوایا تھا، اسی کے مطابق حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لکھوایا، پھر اسی کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لکھوایا ، صحابہ کرام میں سے کسی نے اس کے خلاف رائے نہیں دی تو گویا اس رسم عثمانی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع ہو گیا، لہذا اب اس اجماع کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔
فریقِ دوم
دوسرا موقف یہ ہے کہ رسمِ عثمانی کے مطابق قرآن کریم لکھنا شرعاً واجب نہیں ہے، بلکہ جس خط میں بھی سہولت ہو، اس میں قرآن کریم کو لکھا جا سکتا ہے، یہ موقف علامہ ابن خلدون اور قاضی ابوبکر باقلانی کا ہے۔
دلیل
قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کاتبینِ قرآن پر کسی مخصوص خط اور طرزِ کتابت کو لازم نہیں کیا تھا ، انہوں نے اپنی سہولت سے جس خط میں مناسب سمجھا لکھ دیا، وجوب کے لیے دلیلِ سماعی یا دلیلِ توقیفی ضروری ہے، جب کہ یہاں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، اسی وجہ سے مختلف مصاحف میں خط مختلف ہے۔
فریق سوم
ان کا موقف یہ ہے کہ عوام الناس کے لیے رائج اور معروف رسم الخط میں قرآن کریم لکھا جائے، تاکہ انہیں اختلاط و التباس نہ ہو، تاہم اسلاف کی میراث محفوظ رکھنے کے لیے رسمِ عثمانی کی حفاظت بھی ضروری ہے، رسمِ عثمانی میں قرآن کریم لکھ کر علمائے راسخین اور اولیائے اُمت کے پاس محفوظ کیا جائے ، جب کہ عوام الناس کے لیے ان کے جانے پہچانے رسم الخط میں قرآن کریم لکھا جاسکتا ہے تاکہ انہیں تلاوت کرنے اور سمجھنے میں دقت اور پریشانی نہ ہو، اس موقف کے قائل عز الدین بن عبد السلام اور علامہ برہان الدین زرکشی رحمہما اللہ وغیرہ ہیں
رسم عثمانی کے قواعد
رسمِ عثمانی کے متعلق علمائے کرام نے چھ قواعد بیان کیے ہیں، یہاں ان کو مختصراً بیان کیا جاتا ہے
حذف، ۲۔ زیادت، ۳۔ ہمزہ، ۴- بدل ، ۶،۵ فصل ، وصل ١ـ
پہلا قاعدہ: حذف
یعنی : کتابت میں کسی حرف کو حذف کر دیا جاتا ہے، اس کی کئی قسمیں ہیں
١- حذفِ الف
حذفِ الف کا مطلب یہ ہے کہ بعض الفاظ کی کتابت میں ”الف“ کو حذف کر کے اس کی علامت کے طور پر کھٹرا زبر لگا دیا جاتا ہے، ایسے چند مقامات درج ذیل ہیں :
الف: حرف ندا "یا” کا الف ، جیسے: يٰأَيُّهَا النَّاسُ، يٰبَنِي إِسْرَائِيلَ –
ب : ہائے تنبیہ کا الف ، جیسے: هٰانتُم۔ ج : ”نا“ ضمیر کا الف جب اس کے بعد ضمیر ہو، جیسے: أَنجَینٰکُم ، أرْسَلْنٰكَ اور آتَيْنٰهُمْ ۔
د: لفظ اللہ کا الف ۔
ه: لفظ الہ کا الف ۔
و : لفظ رحمن اور سبحن کا الف۔
ز : لفظ رحمن اور سخن کا الف ۔
ح : لام کے بعد کا الف ، جیسے: خَلٰئِف ۔
ط : دولاموں کے درمیان کا الف ، جیسے: "الكَلٰةُ ۔
ی: تثنیہ کا الف ، جیسے: رَجُلٰن “۔
ک : جمع سالم کا الف ، خواہ وہ جمع مذکر ہو یا مؤنث، جیسے: "سَمّٰعُونَ اور الْمُؤْمِنٰت ، البتہ ! جس جمع سالم میں الف کے بعد ہمزہ یا حرف مضاعف ہو، وہ الف حذف نہیں کیا جائے گا ، جیسے: الصَّائِمِينَ السَّائِلِينَ الضَّالِّينَ اور الْظَّانِّينَ۔
ل : جمع مکسر کا الف ، جیسے: الْمَسٰجِدُ ، الْنَّصٰرٰی“۔
م: عجمی ناموں کا الف، جیسے: ابرٰهيم ، اسمٰعیل ، اسحٰق اور هٰرون وغیرہ، تاہم جو عجمی نام قلیل الاستعمال ہیں، ان کا الف حذف نہیں کیا جاتا ، جیسے : طَالُوت جَالُوت وغیرہ۔
ن : عدد کے درمیان کا الف ، جیسے: ثلٰث ربٰع ۔
س: سَأَلَ کے امر کا پہلا الف، ج: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ ۔
۲- حذفِ یاء
کبھی کلمات سے ” یاء“ کو حذف کر دیا جاتا ہے، اس کی بھی متعدد صورتیں ہیں :
الف ، ب : ناقص واوی یا یائی کا وہ کلمہ جس پر رفع یا جر کی صورت میں تنوین ہو، اس کی یاء حذف کر دی جاتی ہے، جیسے : غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ۔
ج : واحد متکلم کی ضمیر منصوب متصل کی یاء حذف کر دی جاتی ہے، جیسے: أَطِيعُونِ اور وَاعْبُدُونِ۔
۳ – حذفِ واؤ
کبھی کلمات سے واؤ کو حذف کر دیا جاتا ہے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں :
الف : جب دو واؤ اور ضمہ جمع ہو جا ئیں ، تو ایک واؤ کو حذف کر دیا جاتا ہے، وہ کلمہ خواہ فعل کا ہو، جیسے: لا يَسْتوٗن اور فاوٗا إِلَى الْكَهْفِ ، خواہ اسمِ صفت کا ہو، جیسے:
لَیَؤٗسٌ اور الغاوٗن ، یا اسمِ علم ہو جیسے : داوٗد ۔
ب : چار افعال سے واؤ حذف کر دیا جاتا ہے یہ بتانے کے لیے کہ فاعل پر فعل کا وقوع سہولت اور تیزی سے ہوگا اور فاعل کے فعل میں مضبوطی بھی ہے، جیسے: سَنَدعُ الزَّبَانِيَةَ، وَيَمْحُ اللهُ الْبَاطِل، يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ اور وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ
دوسرا قاعده زیادت
یعنی کتابت میں کسی حرف کی زیادتی اور اضافہ کرنا، گویا رسم عثمانی میں بعض اوقات کوئی حرف بڑھا دیا جاتا ہے، اس کی کئی قسمیں ہیں:
۱ – زيادتِ الف
کبھی کسی کلمے کی کتابت میں الف بڑھا دیا جاتا ہے، اس کی متعدد صورتیں ہیں: الف : ہر اس اسم کے آخر میں الف بڑھا دیا جاتا ہے جو جمع ہو، یا جمع کے حکم میں ہو، بشرطیکہ رفع کے مقام میں ہو، جیسے: مُلَاقُوا رَبِّھِمْ ، بَنُوا إِسْرَائِيلَ اور أولُوا الْأَلْبَابِ”۔
ب : اس ہمزے کے بعد جو واؤ پر لکھا جاتا ہے، جیسے: تاللہ تفتؤُا ۔
ج : لفظ مائة اور مِائَتَيْن میں الف بڑھا دیا جاتا ہے۔
د: آیات کا آخر ایک جیسا کرنے کے لیے الف بڑھا دیا جاتا ہے، وَتَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا ، وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا اور فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا۔ ان کے علاوہ دیگر مقامات بھی ہیں، جہاں سماعی طور پر الف پر آگے بڑھایا جاتا ہے۔
۲- زیادتِ یاء
بعض کلمات میں یاء بڑھادی جاتی ہے، ایسے مقامات نو ہیں :
الف : أَفَائن مَّاتَ
ب : مِنْ نَّبَإِى الْمُرْسَلِينَ
ج : مِنْ تِلْقَاءِى نَفْسِي
و : وَإِيتَاءِى ذِي الْقُرْبي
ه : وَمِنْ آنَاءِى اللَّيْلِ
و : أَفَائن مِّتَّ
ز : مِنْ وَرَاءِى حِجَابٍ
ح : وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْيدٍ اور
ط : بِأَييكُمُ الْمَفْتُونَ
۳ – زیادتِ واو
بعض اوقات رسم میں واو بڑھا دی جاتی ہے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں :
الف :- دھمکی اور وعید کے مقام پر، جیسے : ” سَأُورِ یکُم آیاتی اور سَأُورِیکم دَارَ الْفَاسِقِينَ
ب : قوتِ معنی کے لیے واؤ کو بڑھایا جاتا ہے، جیسے: اُولِی اولوا ، أولاء اور أولات وغیرہ۔
تیسرا قاعده: کتابتِ همزه
کلام اور کلمات میں ہمزہ کبھی ابتدا میں آتا ہے، کبھی درمیان میں تو کبھی آخر میں،
ان سب مقامات میں رسم عثمانی کے مطابق ہمزے کی کتابت کا الگ الگ طریقہ ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
ا۔ ہمزہ ساکن
ہمزہ ساکن ہو تو ماقبل کی حرکت کے مطابق لکھا جائے گا، یعنی: اگر ماقبل مکسور ہے تو ہمزہ ”ی“ کے ساتھ لکھا جائے گا ، جیسے : ” إِئذَن “ ، اگر ماقبل مضموم ہے تو ہمزہ واو کے ساتھ لکھا جائے گا ، جیسے : ” اُؤتُمِنَ “ اور اگر ما قبل مفتوح ہے تو ہمزہ الف کے ساتھ لکھا جائے گا، جیسے : ” البَأس“۔
۲- ہمزہ متحرک
ہمزہ متحرکہ کی کتابت کی مختلف حالتوں میں طرز کتابت الگ الگ ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
الف : ہمزہ ابتدائے کلمہ میں ہو اور اس کے ساتھ کوئی حرف زائد ملا ہوا ہو، اس صورت میں الف کے ساتھ لکھا جائے گا خواہ مضموم ہو یا مفتوح یا مکسور ، جیسے : ایوب ، أولُوا ، إِذَا ، سَأَصرِفُ ، سَأُنْزِلُ اور فَبِأى وغیرہ۔
ب: ہمزہ درمیان کلمہ میں ہو، اس صورت میں اپنی حرکت کی جنس کے مطابق حرف کے ساتھ لکھا جائے گا ، یعنی: اگر مکسور ہے تو ہمزہ ”ی“ کے ساتھ لکھا جائے گا ، جیسے:
سُئِلَ ، اگر مضموم ہے تو ہمزہ واؤ کے ساتھ لکھا جائے گا ، جیسے : تَقرَؤُه اور اگر مفتوح ہے تو ہمزہ الف کے ساتھ لکھا جائے گا ، جیسے : ” سَأَلَ “۔
ج : ہمزہ آخر میں ہو ما قبل متحرک ہو، تو اس صورت میں اپنے ماقبل کی حرکت کی جنس کے مطابق حرف کے ساتھ لکھا جائے گا ، یعنی: اگر ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ ”ی“ کے
ساتھ لکھا جائے گا، جیسے : ” شَاطِئٍ ، اگر ماقبل مضموم ہے تو ہمزہ واو کے ساتھ لکھا جائے گا، جیسے: لُؤلُؤ “ اور اگر ما قبل مفتوح ہے، تو ہمزہ الف کے ساتھ لکھا جائے گا، جیسے: سَبَإٍ ۔
د: ہمزہ آخر میں ہو اور اس کا ماقبل ساکن ہو، تو اس صورت میں ہمزہ الگ سے لکھا جائے گا، جیسے: ”مِلْءُ الْأَرْضِ“ اور ”يُخْرِجُ الْخَبْءَ“۔
چوتھا قاعدہ : بدل
یعنی رسم عثمانی میں کبھی ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف بھی لکھا جاتا ہے، اسے عربی میں بدل کہتے ہیں، یعنی تبادلہ کرنا، ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف لانا وغیرہ، اس کی متعدد قسمیں ہیں:
۱ – الف کو بدلنا
کبھی الف کو کسی اور حرف سے بدل دیا جاتا ہے، اس کی متعدد صورتیں ہیں:
الف : چیز کی بڑائی اور عظمت ظاہر کرنے کے لیے الف کو واؤ سے بدل دیا جاتا ہے جیسے: صلوٰة ، زکوٰۃ اور حیوٰة "۔
ب : جب یاء کو بدل کر الف کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں اس الف کو یاء سے بدل دیتے ہیں، جیسے: يَتَوَفّٰی ، یَاحَسرَتٰی ۔
ج : درج ذیل کلمات میں الف کو یاء سے لکھا جاتا ہے: الٰی ، علٰی ، أَنّٰی جب کَیْفَ کے معنی میں ہو ، متٰی ، بلٰی، حتّٰی اور لدٰی البتہ سورہ یوسف میں لدا الْبَابِ کو الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔
۲۔ نون کو الف سے بدلنا
اس کی متعد د صورتیں ہیں :
الف: تاکید خفیفہ کی نون کو الف سے بدل دیا جاتا ہے۔ جیسے: لَنَس٘فَعًا
ب : کلمہ اِذَن میں نون کو الف سے بدل کر اذًا لکھا جاتا ہے۔
: ة تانیث کو بدلنا
تانیث جہاں مفتوح ہو، اس کو لمبی ت سے بدل کر لکھتے ہیں، یہ متعدد كلمات میں ہے:
الف: لفظ رَحْمَتَ سورہ بقرہ، اعراف، ہود، مریم ، روم اور زخرف میں۔
ب : لفظ نِعْمَتَ سوره بقره ، آل عمران ، مائدہ ، ابراہیم ، نحل ، لقمان ، فاطر اور طور میں ۔
ج: لفظ لَعنَت جہاں کہیں بھی آیا ہے۔
درج ذیل صورتوں میں بھی ة کو لمبی ت سے بدل دیتے ہیں :
الف : لفظ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ سورہ مجادلہ میں ۔
ب: لفظ امْرَأَتَ جب زوج کی مضاف ہو کر آئے، جیسے: ” امْرَأَتَ
عمْرَانَ ، امْرَأَتَ نُوح اور امْرَأَتَ لُوطٍ ۔
آنے والے کلمات میں ة تانیث کو لمبی ت سے بدل دیتے ہیں: شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ، قُرَّتُ عَيْنٍ ، جَنَّتُ نَعِيمٍ اور بَقِیَّتُ اللّٰہ۔
پانچواں اور چھٹا قاعدہ: وصل اور فصل
وصل کا معنی ملانا اور فصل کا معنی جدا کرنا ہے، ان دو قاعدوں میں یہ بیان كيا جاتا ہے کہ رسمِ عثمانی میں کن کن الفاظ کو کہاں کہاں پر ملا کر لکھا جاتا ہے اور کہاں کہاں جدا کر کے لکھا جاتا ہے، متعدد کلمات میں یہ قاعدے جاری ہوتے ہیں :
ا۔ أَنْ ہمزے کے فتحہ کے ساتھ جب اس کے بعد ”لا“ آجائے ، تو ان دونوں حرفوں کو ملا کر لکھا جاتا ہے، تاہم دس مقامات اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں، جیسے : أَنْ لا تَقُولُوا اور أَنْ لَا تَعْبُدُوا وغیرہ۔
٢ : مِنْ کے بعد جب ما آ جائے، تو دونوں کو ملا کر لکھا جاتا ہے، البتہ سورة نساء اور سورہ روم میں مِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اور سورہ منافقون میں وَمِن مَّا رَزَقْنٰكُمْ اس قاعدے سے مستثنی ہیں۔
٣ : عَنْ کے بعد ما آجائے تو دونوں کو ملا کر لکھا جائے گا، البتہ عَن مَّا نُهُوا عنہ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہے۔
٤ : إِنَّ کسرے کے ساتھ جب اس کے بعد ما آجائے ، تو دونوں کو
ملا کر لکھا جائے گا ، البتہ وإِن مَّا نُرِيَنَّكَ اس قاعدے سے مستثنیٰ ہے۔
٥ : أَنَّ ہمزے کے فتحہ کے ساتھ جب اس کے بعد ما آجائے تو دونوں كو ملا کر لکھا جائے گا۔
٦ : كُلّ کے بعد جب ما آجائے ، تو دونوں کو ملا کر لکھا جائے گا، البتہ کُلَّمَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ اور مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہ اس قاعدے سے مستثنی ہیں۔
٧ : نِعِمَّا ، رُبَمَا ، كَأَنَّمَا اور وَیْکَأَنَّ کو ہمیشہ ملا کر لکھا جائے گا۔
فائدہ: بعض قواعد کے تحت بعض استثنائی صورتیں لکھ دی گئی ہیں، ان کے علاوہ بھی استثنائی صورتیں ہیں ، جنہیں طوالت کے اندیشے کے پیش نظر نہیں لکھا گیا (ماخوذ از "مناهل العرفان” و "البرهان في علوم القران” )
رسم عثمانی کی خصوصیات
رسم عثمانی میں علمائے کرام نے چھ خصوصیات بیان فرمائی ہیں، جن کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:
ا۔ اس طرز کتابت میں متعدد قراءتیں سما جاتی ہیں۔
٢ـ ایک لفظ کے جو مختلف معانی ہو سکتے ہیں، وہ اس رسم سے حاصل ہو جاتے ہیں۔
۳۔ یہ رسم الفاظ میں مخفی بار یک معانی کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
٤ـ يہ رسم اصل حرکات پر دلالت کرتا ہے۔
٥ـ بعض فصیح لغات اس رسم سے معلوم ہو جاتی ہیں۔
۶ ۔ یہ رسم الخط عمومی طرز تکلم کے مطابق نہ ہونے کے باعث لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ خود سے اس رسم الخط پر اکتفا نہ کریں، بلکہ معتمد قراء حضرات سے قرآن کریم پڑھنا سیکھیں، اس طرح لوگ تلاوتِ قرآن میں غلطیوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ مولانا الشیخ زبیر احمد صدیقی حفظہ اللہ تعالیٰ
واضح رہے کہ مفتی طارق مسعود نے اپنے بیان میں مذکورہ بالا چوتھے قاعدے کے دوسرے جزء کے ” حصہ الف ” کی مثال لَنَسفَعًا کا بطور مثال ذکر کیا تھا ، مگر تعبیر ایسی اختیار کی جس پر بعض علماء کو اعتراض تھا۔
یاد رہے کہ مفتی طارق مسعود نے اپنے ایک بیان میں وائرل گفتگو کی وضاحت پیش کی اور اہانت کے تمام تر الزامات کی تردید کی ، تاہم بعض علماء کی طرف سے اس وضاحتی بیان کو ناکافی سمجھتے ہوئے مفتی طارق مسعود کو غیر مشروط معافی مانگنے اور اپنے الفاظ واپس لینے کا کہا گیا۔
اس پر مفتی طارق مسعود نے نیا پیغام جاری کیا جس میں غیر مشروط معافی ، اپنی نیت و قصد کا اظہار اور اپنے الفاظ سے مکمل رجوع کرنے کا اعلان کر کے اس بحث کو ختم کرنے کی ایک کوشش کی۔