You are currently viewing مفتی منیر شاکر کے خلاف علماء کا فتویٰ
مفتی منیر شاکر کے خلاف بنوری ٹاؤن کراچی سمیت مختلف مکاتب فکر کے علماء کا فتوی

مفتی منیر شاکر کے خلاف علماء کا فتویٰ

مفتی منیر شاکر پاکستان کے ممتاز عالم دین اور پشتو زبان کے بلند پایہ مگر متنازعہ خطیب ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں 4 اپریل 1969 کو پیدا ہوئے۔ بنوری ٹاؤن کی شاخ اور دار العلوم سے درسِ نظامی ، جامعة الرشید سے تخصص فی الفقہ ، ایف ایم ریڈیو پر دعوت و تبلیغ کا آغاز ، پیر سیف الرحمان سے معرکہ آرائی ، لشکر اسلام تنظیم کی بنیاد ، گرفتاری اور رہائی ، اشاعت التوحید والسنة سے وابستگی اور پھر برأت ، علامہ تمنا عمادی سے متاثر ہونا ، سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال ، مبینہ انکارِ حدیث کے الزامات ، مختلف مکاتبِ فکر کا ان کے خلاف فتویٰ وغیرہ مفتی منیر شاکر کی زندگی کے چند ایسے اہم عنوانات ہیں جن کی قدرے تفصیل آپ درج ذیل سطور میں پڑھ سکتے ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ضلع کرم کے گورنمنٹ ہائی سکول مکئی زئی سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کرتے ہوئے مفتی منیر شاکر نے کراچی میں دینی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنی ثانوی تعلیم جامعہ بنوری ٹاؤن برانچ سہراب گوٹھ میں علامہ بنوری کی رہنمائی میں حاصل کی۔ تکمیل جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی سے جبکہ مفتی کورس اس وقت کے مفتی اعظم پاکستان مفتی رشید احمد لدھیانوی کی سرپرستی میں جامعۃ الرشید کراچی سے مکمل کیا۔

تبلیغِ دین کے لیے عملی میدان میں

علوم دینیہ سے فراغت کے بعد اشاعتِ دین کی مروجہ شکلوں میں مصروف ہوئے، جن میں سے خیبر ایجنسی کے مرکز باڑہ میں قائم کردہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن سے اس وقت کافی شہرت ملی جب فریقِ مخالف افغان نژاد پیرِ طریقت، معروف سلسلہ سیفیہ کے بانی پیر سیف الرحمان سے علمی ٹکراؤ پیدا ہوا ، دونوں طرف سے شدید تلخی آمیز بیانات کا اجراء روزمرہ کا معمول تھا جس کی وجہ سے دونوں رہنماؤں کے عقیدت مند باہم دست و گریباں ہو گئے ، خونریز جھڑپیں ہوئیں اور جانبین سے سینکڑوں اموات ہوئیں۔

واضح رہے کہ پیر سیف الرحمن مرحوم بریلوی مسلک کی ذیلی شاخ سیفی گروپ کے بانی اور اس وقت مفتی منیر شاکر دیوبندی مسلک کی ذیلی شاخ پنج پیری گروپ کے مرکزی رہنما تھے۔

کالعدم تنظیم لشکرِ اسلام

غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق باڑہ میں مفتی منیر شاکر نے اپنے مسلح حامیوں کو جمع کر کے لشکرِ اسلام نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جبکہ دیگر ذرائع کے بقول یہ تنظیم پہلے سے موجود تھی البتہ بعد میں ان کی اکثریت مفتی منیر کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئی جس کی وجہ سے مفتی منیر کو تنظیم میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔

اپریل 2006 کو حکومت نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر سخت اقدامات کرتے ہوئے لشکر اسلامی کے ایف ایم اسٹیشن کو توپ کے گولے سے تباہ کردیا اور تنظیم کے خلاف ممکنہ آپریشن میں عام لوگوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لیئےتقریبا سات سو مکینوں کو نکل جانے کا حکم دیا لیکن لشکراسلامی نے آپریشن شروع ہونے کے خوف سے صدر دفتر بشمول مسجد ، مدرسہ اور حجرہ حکومت کے حوالے کردیا۔

سکیورٹی فورسز نے لشکر اسلامی کے صدر دفتر کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا اور وہاں پر خیبر رائفل اور نیم فوجی ملیشیا کے درجنوں نوجوان تعینات کردیے۔ مفتی منیر شاکر اور پیر سیف الرحمن کو ایک معاہدے کے تحت علاقہ بدر کر دیا۔

گرفتاری اور رہائی

مفتی منیر شاکر کو سولہ مئی 2006 کو کراچی ائیرپورٹ سے اس وقت نامعلوم افراد اپنے ساتھ نامعلوم مقام لے گئے جب مفتی منیر اپنے ساتھی فاروق کے ہمراہ اپنے گیارہ سالہ بیٹے عبداللہ کو ایک مدرسہ میں داخل کرانے جا رہے تھے۔سال بھر لاپتہ رہنے کے بعد مفتی منیر شاکر کے والد مولانا رحمت خان نے جون 2007 کو پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کراچی ایئرپورٹ سے حراست میں لیے جانے کا قصہ بیان کیا اور کہا کہ دس ماہ تک انہوں نے کسی سے ڈر کے مارے بات نہیں کی مگر اب ان سے بیٹے کی مزید جدائی برداشت نہیں ہوتی کیونکہ ان ایک ہی بیٹا ہے اور اگر اس کا کوئی جرم ہے تو اسے عدالت اور میڈیا کے سامنے لایا جائے۔

پھر اگست 2007 کو ایک دن مفتی منیر شاکر پندرہ ماہ بعد اچانک پشاور میں منظرِ عام پر آئے اور بتایا کہ گورنر سرحد کے حکم پر انہیں گزشتہ سال خیبر ایجنسی کی پولیٹکل انتظامیہ نے حراست میں لیا تھا اور اب سپریم کورٹ کے حکم پر سنٹرل جیل کراچی سے رہائی ہوئی ہے۔

اشاعت التوحید و السنہ سے علیحدگی

مفتی منیر شاکر شروع سے ہی دیوبندی مکتبہِ فکر والی جماعت "اشاعت التوحید و السنہ” سے منسلک تھے ، رفتہ رفتہ اس جماعت میں بڑی مقبولیت حاصل کر گئے ، تاآنکہ 2019 میں جماعت کی مرکزی قیادت سے اختلافات پیدا ہوئے جو بالآخر جماعت سے علیحدگی پر منتج ہوئے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق مفتی منیر شاکر کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جہاں جماعت کی مرکزی قیادت خوف زدہ تھی اور اپنی امارت کے کھو جانے کا خطرہ محسوس کرتی تھی ، وہاں مفتی منیر شاکر کے چند تفردات اور منفرد آراء بھی اس علیحدگی کا باعث بنے۔

علامہ تمنا عمادی سے متاثر ہونا

مفتی منیر کے نئے نئے نظریات کیا تھے ؟ سب سے پہلے احادیث کے بارے میں "حدیثِ سحر اور حدیثِ افک” کے تشریح کرتے ہوئے بخاری شریف اور مسلم شریف پر جرح کرنا مفتی منیر شاکر کا عام علماء و مبلغین سے ہٹ کر نیا طرز سامنے آیا۔اس حوالے سے مفتی منیر کے قریبی ساتھیوں نے انکشاف کیا کہ مفتی منیر برصغیر کے مشہور متنازعہ مصنفین علامہ تمنا عمادی، عمر احمد عثمانی ، حبیب الرحمن کاندھلوی وغیرہ کی کتابیں نہ صرف زیرِ مطالعہ رکھتے ہیں بلکہ قریبی حلقوں میں تقسیم بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے اشارے کنائے میں امام بخاری اور امام مسلم پر تنقید کرتے ہیں اور اشاعت التوحید و السنہ کے سابق مرکزی رہنما اور پنجابی زبان کے مایہ ناز مگر انتہائی متنازعہ خطیب علامہ سعید احمد خان ملتانی کی تائید بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علامہ صاحب حدیث پر متن کے حوالے سے معترض تھے جبکہ ہم (اشاعتی) سند کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔

اشاعت کا صوبائی اجلاس

دو مئی سن 2019 کو اشاعت التوحید و السنہ کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سرکردہ علماء دار القرآن پنج پیر میں جمع ہوئے اور چند مجالس کے بعد مفتی منیر شاکر کو منکرِ حدیث قرار دے کر اعلانِ برأت کر گئے اور مفتی منیر کی جماعت کی بنیادی رکنیت بھی ختم کرنے کا اعلان کر لیا۔جواب میں مفتی منیر شاکر نے اپنے کولیگز کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے اس سارے عمل کے محرک کو جمود ، ذہنی غلامی اور قیادت چھن جانے کا خوف بتلایا اور کہا کہ علامہ تمنا عمادی وغیرہ کی کتابیں میں نے صرف تحقیق کے لیے دیں تھیں، اُن کا مشن پھیلانے کے لیے نہیں۔

سوشل میڈیا پر کام

جماعت اشاعت التوحید سے اخراج کے بعد عام خیال تھا کہ دیگر جماعتوں کی طرح "اشاعت میم(منیر شاکر گروپ)” نامی تنظیم بن جائے گی ، لیکن نہیں ، مفتی منیر شاکر نے اپنی دعوت و اشاعت کا کام جدید ذریعہ ابلاغ یعنی سوشل میڈیا پر شروع کیا اور بہت جلد اپنے نرالے انداز ، جرأت و بے باکی، اچھنبے موضوعات اور خوش الحانی کی بدولت سوشل میڈیا سٹار بن گئے۔

مفتی منیر شاکر اپنی تعلیمات کو شیئر کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل کے ذریعے تفسیر کی کلاسز، خطبات اور مباحثے سامعین تک پہنچاتے اور سیکھاتے ہیں۔

انکارِ حدیث کے الزامات

ویسے تو مفتی منیر شاکر نے روایتی علماء سے ہٹ کر کئی ایسے افکار پیش کیے جو مروجہ فرقوں اور گروہوں کے تقریباً مشترکات کے خلاف ہیں مثلاً تراویح کا مسئلہ ، غذابِ قبر کا مسئلہ ، حدیثِ افک ، عمرِ سیدہ عائشہ رض ، سحر بر نبی علیہ السلام ، لیکن سب سے بڑا الزام جو مفتی منیر پر لگایا جاتا ہے وہ ہے انکارِ حدیث بلکہ مخالفین علماء کے بقول مذکورہ مسائل میں مفتی منیر شاکر کا ساری امت سے کترا جانے کی وجہ بھی دراصل یہی انکارِ حدیث ہے۔

اس حوالے سے مفتی منیر شاکر کا موقف ہے کہ یہ محض الزام ہے ، میں احادیث کو تو مانتا ہوں بشرطیکہ وہ قرآن مجید اور عقلِ سلیم سے معارض نہ ہوں۔ مفتی منیر کے ایک معتقد لکھتے ہیں کہ مفتی صاحب احادیث ک منکر نہیں بلکہ وہ ان روایات کو نہیں مانتے جو منسوب تو رسول کی طرف ہیں مگر قرآن یا عقلِ سلیم اور احادیث موافقہ اور صحیحہ کے خلاف ہیں، کیوں کہ اس طرح کی روایات رسول اللہ کی بات ہو نہیں سکتیں کیونکہ رسول قرآن کے خلاف کبھی نہیں بول سکتے۔

کچھ محققین کے بقول ماضی قریب کے معروف منکرِ حدیث غلام احمد پرویز کا بھی یہی موقف تھا اور معروف متجدد عالم دین جاوید احمد غامدی کا بھی موقف لگ بھگ ایسا ہی ہے کہ میزان تو قرآن ہے ، جو روایت قرآن اور تواترِ عقلی کے خلاف نظر آئے ، اسے روایت تو کہہ سکتے ہیں ، حدیثِ رسول نہیں۔

پرویزیت کے لیے ہموار رستہ

مفتی منیر شاکر کے ان افکار سے ان لوگوں کو کافی تقویت ملی جن کے اسلاف پر ماضی کے علماء نے انکارِ حدیث کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ چنانچہ ایک پرویزی نہایت پر جوشی سے لکھتے ہیں کہ ” مفتی منیر شاکر پر سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ وہ حدیث کا منکر ہے اور یہی پرویز صاحب کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا تھا۔ جبکہ پرویز اور مفتی منیر شاکر دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس حدیث کو نہیں مانتے جو قرآن کے خلاف ہے۔ اور یہی فقہ حنفی کی تعلیمات بھی ہیں۔ جب علماء ومفتیان اور پرویز سے متاثر ہونے والی عوام کو ایک ڈگر پر لایا جائے کہ کونسی حدیث قرآن سے متصادم ہے تو پھر ہم آہنگی اور یکجہتی کا راستہ بھی نکلے گا۔ جس دن حنفی و پرویزی ایک راستے پر چلنے کیلئے تیار ہوگئے تو یہی بہت بڑا انقلاب ہوگا اور پھر دوسرے لوگوں کو ساتھ ملانے میں بھی وقت نہیں لگے گا

دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ

حالیہ دنوں خیبر پختونخوا کے ایک مناظر عالم دین مفتی ندیم محمودی نے مفتی منیر شاکر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود بیانات میں سے متنازعہ کلپس جمع کیے ، انہیں ایک استفتاء کی صورت میں مرتب کیا اور مختلف مکاتب فکر کے مستند دار الافتاؤں میں بھیجا اور مفتیان کرام سے پوچھا کہ ایسے عقائد و نظریات کے حامل شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟

شنید ہے کہ فی الحال کراچی کے معروف دار الافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن سے جواب آ چکا ہے اور درج ذیل تحریر کے بارے میں ادعا کیا گیا ہے کہ یہ وہی فتویٰ ہے جو مفتی ندیم محمودی کے اسی استفتاء کی بنیاد پر دار الافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن سے مفتی منیر شاکر کے خلاف جاری ہوا ہے۔

استفتاء کا متن اور جوابِ مفتیان

سوال عرض ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک انتہائی چرب زبان ” خطیب ہیں، موصوف عرصہ دراز سے مسلمانوں کے اندر موجود چودہ صدیوں کے اتفاقی نظریات و اعمال پر تنقید کرتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں نہ صرف شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں، بلکہ علماء خصوصًا اسلاف کو قرآن کی آڑ میں کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر مسلمانوں کو علماء و اسلاف سے بدظن کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

ساتھ ہی اپنے ویڈیو بیانات و دروس میں قرآنِ مجید، احادیث رسول ، انبیاء کرام علیہم السلام، مقدس شخصیات و اسلاف امت کے متعلق انتہائی توہین آمیز و گستاخانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، جو مقامی مسلمانوں میں سخت افتراق و انتشار کا باعث بن رہا ہے۔ پختون پٹی کے کئی سادہ لوح مسلمان اس کے دامِ تزویر میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور اب وہ بھی کھلم کھلا اسلامی معتقدات و شعار کا نہ صرف انکار کر رہے ہیں، بلکہ استہزا کر رہے ہیں۔

موصوف کی دل آزار باتیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جنہیں ان کے آفیشل یو ٹیوب و فیس بک پیج پر تفصیل کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، البتہ ہم یہاں موصوف کے چیدہ چیدہ نظریات نقل کر دیتے ہیں

  • موصوف احادیث کی صحت کا کھلم کھلا منکر ہے اور احادیث کی کتب کو بھی ایرانی سازش کہتا ہے، معاذ اللہ(۱)
  • موصوف اپنے بیانات میں کہتے ہیں کہ احادیث کی کتب رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد ایرانیوں نے تیار کیں(۲)۔
  • ان تیار شدہ احادیث کے مجموعوں میں ایرانیوں نے اپنی من مانی باتیں داخل کی ہیں۔(۳)
  • امام بخاری رحمہ اللہ و دیگر جید محدثین کے بارے میں انتہائی سخت نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور ان کی عدالت و ثقاہت کو مجروح یا کم از کم مشکوک بنانے کی صراحۃً کنایۃً و اشارۃً کو شش کرتا ہے۔(۴)
  • موصوف اپنے بیانات میں کہتا ہے کہ قرآن خود رسول اللہ ﷺنے امت کو دیا جبکہ احادیث رسول ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد امتیوں نے لکھ کر دیں اسی لیے احادیث میں اتنی گڑ بڑ اور باہم تضاد ہے۔(۵)
  • اطاعتِ رسول ﷺ کو تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ : ” وہ محض ایک انسان تھے اللہ نے چوں کہ ان کی اطاعت کا حکم دیا تو ہم مانتے ہیں اگر وہ بھی معاذ اللہ قرآن کے خلاف کوئی بات کہہ دیں تو ہمیں تسلیم نہیں۔‘‘(۶)
  • اپنے بیان میں کہتا ہے کہ ”رسول رسالہ “ سے ہے بمعنی پیغام رساں ڈاکیہ۔ لہذا رسول، اللہ کا پیغام ( جس سے مراد اس کی صرف قرآن ہے ) لے کر آئے تو وہ رسول ہے اگر اپنی طرف سے کوئی بات کرے تو وہ معاذ اللہ رسول نہیں۔(۷)
  • اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولى الامر میں رسول و اولی الامر کی اطاعت اس وقت واجب ہے جب وہ اللہ کی بات کرے، اگر اپنی طرف سے کوئی بات کرے تو معاذ اللہ رسول واجب الاطاعت نہیں۔(۸)
  • اسی ضمن میں موصوف فرماتے ہیں کہ :اب لوگ کہتے ہیں کہ رسول کی احادیث حجت ہیں کیوں کہ اس پر کتابیں لکھی گئی ہیں تو اگر رسول اللہ کی احادیث حجت ہیں جس میں رسول کی باتیں ہیں پھر تو معاذ اللہ بادشاہوں کی باتیں بھی حجت ہوں گی اور ان کی باتوں پر بھی کتب لکھنی چاہییں۔ (گویا موصوف کے نزدیک رسول کی حیثیت ایک بادشاہ جیسی ہے معاذ اللہ )(۹)
  • معراج رسول ﷺکا مطلقا انکاری ہے اور مختلف عقلی شبہات و ڈھکوسلے پیش کر کے واقعہ معراج کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتا ہے۔(١۰)
  • رسول اللہ ﷺ کے لیے ہر قسم کی شفاعت کا منکر ہے۔(۱۱)
  • کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ کلمہ نہیں کیوں کہ کلمہ صرف لا اله الا اللہ ہے۔(۱۲)
  • کلمہ کے دوسرے جز محمد رسول اللہ کے بارے میں کہتا ہے کہ جس طرح شیعوں نے کلمہ میں اضافہ کیا اسی طرح مولویوں نے بھی کلمہ کے اندر محمد رسول اللہ کا اضافہ کردیا۔(۱۳)
  • حضرت سلیمان علیہ السلام جو پرندوں یا حیوانات کی بات سمجھتے تھے، ان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے: حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی سمجھتے تھے تو سوال یہ ہے کہ آیا سلیمان علیہ السلام جو ان پرندوں و حیوانات سے باتیں کرتے اور ان کی بولی سمجھتے تھے اور ان سے ان ہی کی آواز میں محو گفتگو ہوتے؟ اگر ایسا ہے پھر تو یہ سلیمان علیہ السلام کی کھلی گستاخی ہے کیوں کہ بعض حیوانات و پرند (مثلًا کتا اور کوا) کی آواز تو بڑی مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔ اور اگر حیوانات و پرندے آپ سے انسانوں کی آواز میں بات کرتے تو یہ ان حیوانات و پرندوں کا کمال ہوا، اس میں آپ علیہ السلام کا کمال کہاں سے ہوا؟ معاذ اللہ!(۱۴)
  • موصوف ایک بیان میں انتہائی دل آزار انداز میں کہتا ہے:”محمد میرے کوئی چاچا زاد بھائی نہیں کہ میں ان کو مانوں اگر اللہ محمد ﷺ کے ماننے کا نہ کہتا تو میں کبھی نہ مانتا“۔(۱۵)
  • مفتی مذکور اپنے ایک بیان میں کہتا ہے جسے نقل کرتے ہوئے بھی ہاتھوں پر رعشہ طاری ہوتا ہے کہ :روایات میں تو یہ بھی ہے کہ اگر کسی نے ایک نماز قضا کی اور پھر ادا بھی کر دے تب بھی دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم میں جلے گا تو نبی اکرم ﷺنے ایک دن میں تین نمازیں قضا کی ہیں ان کو جہنم میں (معاذ اللہ ) کتنے عرصہ کی سزا ملے گی۔ ( نقل کفر کفر نہ باشد ، معاذ اللہ )(۱۶)
  • نواسہ رسول ﷺ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے اہلِ بیت میں سے معاذ اللہ نہ ہونے کے متعلق کہتا ہے : ”حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اہلِ بیت میں سے نہیں؛ کیوں کہ نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے نہ کہ ماں کی طرف، حضرت حسین ابو طالب کی اولاد میں سے ہیں“۔(۱۷)
  • نماز تراویح کا قائل نہیں اور کہتا ہے کہ تراویح کی مشروعیت کا قائل ہونا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے، اگر سنت کی نیت سے پڑھی جائیں تو یہ شرک ہے۔ معاذ اللہ!(۱۸)
  • رسول اللہ ﷺ یا اولیاء اللہ سے محبت کرنا ان کی محبت کا درس دینا شرک ہے اور مولویوں نے پوری زندگی منبروں سے اسی شرک کا ارتکاب کیا ہے۔(۱۹)
  • قرآن کی تفسیر نہ احادیث سے جائزہے نہ اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے اور نہ مفسرین سے ۔( معاذ اللہ ) (۲۰)
  • مولویوں نے قرآن کو روایات کا غلام بناد یا معاذ اللہ!(۲۱)
  • قرآن کو ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ عکرمہ، آلوسی، رازی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اور دیگر مفسرین کا غلام بنادیا گیا۔(۲۲)
  • حوض کوثر کا منکر ہے جس کا ثبوت مشہور احادیث سے ہے۔(۲۳)
  • معتزلہ کی طرح پل صراط کا انکار کرتا ہے۔( ۲۴)
  • تنعیم و تعذیب قبر یعنی حیات فی القبر کا مطلقًا منکر ہے۔(۲۵)
  • معجزات و کرامات کا سرے سے انکار کرتا ہے۔(۲۶)
  • بلکہ جا بجا معجزات و کرامات کا موقع بموقع استہزا کرتا ہے۔(۲۷)
  • ذکر سبحان الله ، الحمد لله ، الله أكبر وغیرہ کے فضائل کا منکر ہے اور اسے ایک لایعنی کام کہتا ہے، معاذ اللہ!(۲۸)
  • تصوف کا مطلقًا منکر ہے، بلکہ تصوف کو شرک سمجھتا ہے۔(۲۹)
  • مذاہبِ اربعہ (احناف شوافع ، حنابلہ، مالکیہ ) کو دینِ اسلام کے متبادل مولویوں کا بنایا ہوا دین کہتا ہے۔ معاذ اللہ!(۳۰)
  • مدارس کو فرقہ وار یت اور انسان و اکابر پرستی کا مرکز و گڑھ کہتا ہے ۔(۳۱)
  • اللہ کے علاوہ کسی کے لیے بھی زندہ باد کا نعرہ لگانے کو شرک کہتا ہے۔(۳۲)
  • گزشتہ سال ایک ہندو عورت کی رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی پر رد عمل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ معاذ اللہ اس ہندو عورت سے زیادہ پیغمبر کی شان میں گستاخیاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور ان جیسے دیگر محد ثین نے کی ہیں، لہذا ان کے خلاف احتجاج کرو۔ معاذ اللہ!(۳۳)
  • سحر و جادو کے اثرات سے مطلقًا انکار کرتا ہے۔(۳۴)
  • کہتا ہے کہ: "رسول اللہ ﷺ پر نہ جادو ہوا اور نہ جادو اثر کر سکتا ہے ، اور اس باب میں وارد تمام روایات و اقوال سلف کا انکار کرتا ہے۔( ۳۵)
  • قرآن مجید میں "ہدہد” سے مراد پرندہ نہیں، بلکہ انسان ہے اور اسی طرح نملہ سے مراد عورت ہے۔(۳۶)
  • مفتی مذکور عبادات خصوصًا نماز میں صرف فرائض کا قائل ہے، جب کہ سنتوں کو وہ نفل کا درجہ دیتا ہے اور کھلم کھلا لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں، کر لیا تو ثواب ہے، نہ کیا تو کوئی گناہ و حرج نہیں۔(۳۷)
  • مومن کا ہتھیار دعا و عبادات خصوصًا نماز کے متعلق استہزاء کرتے ہوئے کہتا ہے :کافر ہم مسلمانوں کی کھلم کھلا بے عزتی کر رہے ہیں اور ہم دعاؤں اور نمازوں میں مشغول ہیں، دعاؤں اور نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں ۔معاذ اللہ !(۳۸)
  • قرآن کا ترجمہ نہیں آتا تو محض تلاوت کا کوئی ثواب نہیں ۔(۳۹)
  • اگر نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں اور تسبیحات کا ترجمہ نہیں آتا تو ایسی نماز کا کوئی فائدہ نہیں اور اس پر کوئی ثواب نہیں ۴۰
  • موصوف اپنے ایک بیان میں کہتا ہے کہ : قرآن تو انقلاب کی کتاب ہے نہ کہ حفظ و تلاوت کرنے کی کتاب (۴۱)
  • موصوف کو مولویوں سے سخت بغض و عناد ہے، کوئی بیان ایسا نہیں جس میں علماء کا استہزا ، ان پر تنقید نہ ہو، بات کوئی بھی ہو گھما پھرا کر اس کی تان آخر اس پر آکر ٹوٹتی ہے کہ:دنیا میں اس وقت جو بھی فساد برپا ہے اس کی وجہ مولوی ہے اور اس تمام افتراق و انتشار فتنہ و فساد کاذمہ دار مولوی ہے۔(۴۲)
  • موصوف کہتا ہے: امارت اسلامی افغانستان کا مقصد تو قرآن کا نفاذ تھا، مگر اب وہاں طالبان ابوحنیفہ کا دین نافذ کر رہے ہیں۔(۴۳)
  • اجماع کی حجیت کے قائل نہیں ہیں ۔(۴۴)
  • آیة الکرسی یا وہ سورتیں جن کے نام فضائل احادیث یا بزرگان کے تجربات میں وارد ہیں یا آیاتِ حفظ، ان کے بارے میں کہتا ہے کہ :تم نے اللہ تعالی کو آیت الکرسی اور سورتوں کا نوکر بنادیا ہے ۔ (یعنی تم یہ آیتیں وسورتیں پڑھو گے تو کیا اللہ معاذاللہ تمہارا نوکر ہے جو تمہاری حفاظت کرے گا)(۴۵)
  • 9 سال کی عمر میں اماں عائشہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کا انکار کرتا ہے اور اس حوالے سے امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اور دیگر محدثین پرسخت جرح کرتے ہوئے ان کی توہین و تذلیل کرتا ہے (۴۶)
  • معراج کی رات پانچ نمازوں کا ملنا اور فرض ہونے کا نہ صرف منکر ہے، بلکہ انتہائی نازیبا استہزائیہ انداز میں ان کا انکار کرتا ہے ۔(۴۷)
  • کہتا ہے کہ نماز یں تو پچھلی امتوں پر بھی فرض تھیں اور معراج کی رات سے پہلے فرض تھیں، لہذا وہ تمام روایات جس میں معراج کی رات نماز کا تحفہ ملنے کا ذکر ہے، بے بنیاد غلط اور جھوٹی ہیں ۔ معاذ اللہ!(۴۸)
  • موصوف کا نظریہ ہے کہ قربانی صرف حاجی کے ساتھ خاص ہے، غیر حاجی کے لیے قربانی نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، بلکہ یہ صرف گوشت کا حصول ہے(۴۹)
  • تراویح کے وجود خصوصًا سنت ہونے کا علی الاطلاق منکر ہے۔ جس کی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں سے عبادات میں سست مسلمانوں نے اس عبادت کو کلیۃً ترک کر دیا اور دیگر کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں(۵۰)
  • موصوف قرآن کریم کی من مانی تفسیر کرنے کے لیے راہ ہموار کرتے ہوئے کہتا ہے : قرآن کریم کامل کتاب ہے، لہذا اس کی تفسیر کے لیے نہ احادیث کی ضرورت ہے، نہ روایات صحابہ کرام اور نہ اقوال مفسرین، جو قرآن کی تفسیر احادیث و روایات یا اقوال سلف سے کرتا ہے، وہ گویا قرآن کو ناقص سمجھتا ہے ۔ (معاذ اللہ )(۵۱)
  • موصوف کہتے ہیں کہ مدارس میں اساتذہ نے مجھے وہ د دین سکھایا جو قرآن کے خلاف ہے۔ (یاد رہے کہ موصوف کے اساتذہ میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرکردہ مدارس کے محدثین کرام و مشایخ ہیں) (۵۲)
  • موصوف کا نظریہ ہے کہ : ” رمضان کے مہینے کی کوئی خاص فضیلت نہیں۔”(۵۳)
  • صلوۃ التسبیح کو جعلی و من گھڑت نماز کہتا ہے اور کہتا ہے شریعت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ (۵۴)

غرض یہ اس شخص کے چند عقائد و نظریات ہیں جو بندے نے نقل کیے ہیں، ورنہ اس کے دروس میں اس سے کہیں زیادہ خرافات کو سنا جا سکتا ہے ، یاد رہے کہ ان تمام باتوں خصوصًا مقدس شخصیات و شعار اسلام کا ذ کر کرتے ہوئے انتہائی عامیانہ و توہین آمیز انداز اپناتا ہے۔ اس تفصیل کے بعد

کیا فرماتے ہوئے علمائے دینِ متین و مفتیانِ دین اسلام قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں کہ :(۱) ایسے عقائد کا حامل شخص خواہ کوئی بھی ہو کیا ایسے شخص کو مسلمان کہا جا سکتا ہے؟ (۲) کیا مندرجہ بالا نظریات مسلمانوں یا اسلام کے نظریات ہیں؟ (۳) کیا ایسے نظریات کے حامل شخص کے دروس سننا جائز ہے؟ (۴) ایسے نظریات کے حامل شخص کو ایک دینی راہ نما بنا کر اس کے انٹرویوز کرنا اور پھر اسے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس اور چینلز سے نشر کرنا یا شیئر کرنا جائز ہے؟ (۵) ایسے نظریات کے حامل شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاشرتی تعلقات رکھنا جائز ہے؟ (٦) ایسے شخص کے مدرسے میں اپنے بچوں کو داخل کروانا یا اس کے مدرسے کے ساتھ مالی یا دیگر تعاون کرنا جائز ہے؟ (٧) ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ براهِ کرم مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دلائل کی روشنی میں جلد سے جلد عنایت فرمائیں، تا کہ اس شخص کے دامِ تزویر میں پھنسے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہی کی دلدل میں مزید دھنسنے سے بچایا جا سکے۔

الجواب

جواب (1 اور 2 کا) : سوال نامہ میں ذکر کردہ اکثر نظریات معتزلہ اور منکرینِ حدیث کے ہیں، جب کہ بعض باتوں سے احادیثِ مبارکہ اور علماءِ امت کی توہین و استخفاف کا پہلو بھی نکلتا ہے، جو شخص ذکر کردہ نظریاتِ واہیہ و فاسدہ کا حامل ہو، وہ اہلِ سنت والجماعت اور دائرۂِ اسلام سے خارج ہے۔

جواب (3) کا : ایسے نظریات کے حامل شخص کے دروس سننے سے احترام لازم ہے۔

جواب ( 4 اور 5 ) کا : ایسے نظریات کے حامل شخص کو دین کا راہ نما و مقتدا بنانا جائز نہیں ہے، اس کے انٹرویوز کرنا ویڈیوز شیئر کرنا کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے، نیز ایسے نظریات کا حامل شخص جب تک اپنے باطل نظریات سے باز نہ آئے اور تجدیدِ ایمان نہ کرے، اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

جواب (6) کا : ایسے نظریات کے حامل شخص کے مدرسہ میں اپنے بچوں کو علمِ دین سیکھنے کے لیے بھیجنا، اور اس کے مدرسہ کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔

جواب (7) کا : ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔

ترتیب وار حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔

مرقاة المفاتيح میں ہے

:162 – "وعن أبي رافع رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «لا ألفين أحدكم متكئا على أريكته، يأتيه الأمر من أمري مما أمرت به أو نهيت عنه، فيقول لا أدري، ما وجدنا في كتاب الله اتبعناه» ) . رواه أحمد وأبو داود، والترمذي، وابن ماجه، والبيهقي في (دلائل النبوة)
(لا أدري) ، أي: لا أعلم غير القرآن ولا أتبع غيره أو لا أدري قول الرسول (ما وجدنا) : ما موصولة أو موصوفة (في كتاب الله) ، أي: القرآن (اتبعناه) : يعني: وما وجدناه في غيره لا نتبعه، أي: وهذا أمر الذي أمر به عليه الصلاة والسلام أو نهى عنه لم نجده في كتاب الله فلا نتبعه، والمعنى لا يجوز الإعراض عن حديثه عليه الصلاة والسلام، لأن المعرض عنه معرض عن القرآن. قال تعالى: {وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا} [الحشر: 7] وقال تعالى {وما ينطق عن الهوى – إن هو إلا وحي يوحى} [النجم: 3 – 4] وأخرج الدارمي عن يحيى بن كثير قال: كان جبريل ينزل بالسنة كما ينزل بالقرآن، كذا في الدر، ثم من قال بأنه عليه الصلاة والسلام كان مجتهدا ينزل اجتهاده منزلة الوحي لأنه لا يخطئ، وإذا أخطأ ينبه عليه بخلاف غيره.”(کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج:1، ص:245، ط:دار الفكر، بيروت – لبنان)

وفیه أيضا

"قال تعالى: {‌لتبين ‌للناس ما نزل إليهم} [النحل: 44] ولا خفاء في الإجمالات القرآنية، والتبيينات الحديثية، فإن الصلاة مجملة لم يبين أوقاتها، وأعدادها، وأركانها، وشرائطها، وواجباتها، وسننها، ومكروهاتها، ومفسداتها إلا السنة، وكذا الزكاة لم يعلم مقدارها، وتفاصيل نصابها، ومصارفها إلا بالحديث، وكذا الصوم، والحج، وسائر الأمور الشرعية، والقضايا، والأحكام الدينية، وتمييز الحلال، والحرام، وتفاصيل الأحوال الأخروية، فعليك بالكتاب، والسنة، وإجماع الأمة، وبالاجتناب عن طريق أرباب الهوى، وأصحاب البدعة ; لتكون من الفرقة الناجية السالكة طريق المتابعة على وجه الاستقامة. ولله در القائل:كل العلوم سوى القرآن مشغلة … إلا الحديث، وإلا الفقه في الدينالعلم متبع ما فيه حدثنا … وما سوى ذاك وسواس الشياطين.”(مقدمة المؤلف، ج:1، ص:11، ط:دار الفكر، بيروت – لبنان)

حجة اللہ البالغة میں ہے

"اعلم :” أنه لا سبيل لنا إلى معرفة الشرائع والأحكام إلا خبر النبي ﷺ ، بخلاف المصالح ، فإنها قد تُدرك بالتجربة ، والنظر الصادق ، والحَدْس ، ونحو ذلك . ولا سبيل لنا إلى معرفة أخباره الله إلا تَلَقَّي الروايات المنتهية إليه بالاتصال والعنعنة ، سواء كانت من لفظه، أو كانت أحاديث موقوفةً قد صحت الرواية بها عن جماعة من الصحابة والتابعين ، بحيث يبعد إقدامهم على الجزم بمثله لولا النص أو الإشارة من الشارع ، فَمِثْلُ ذلك رواية عنه ﷺ دلالة . وتلقي تلك الروايات لا سبيل إليه في يومنا هذا ، إلا تتبع الكتب المدونة في علم الحديث، فإنه لا يوجد اليوم رواية يعتمدعليها غيرمدونة.”(طبقات کتب الحدیث، ج:1، ص:440، ط:دارابن کثیر)

تفسير الخازن میں ہے

"قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ .”﴿آل‌عمران: ٣١﴾ولما نزلت هذه الآية قال عبد الله بن أبي ابن سلول رأس المنافقين لأصحابه: إن محمدا يجعل طاعته كطاعة الله ويأمرنا أن نحبه كما أحبت النصارى عيسى ابن مريم فأنزل الله عز وجل: قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ يعني أن طاعة الله متعلقة بطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن طاعته لا تتم مع عصيان رسول الله صلى الله عليه وسلم ولهذا قال الشافعي رضي الله عنه: كل أمر أو نهي ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم جرى ذلك في الفريضة واللزوم مجرى ما أمر الله به في كتابه أو نهى عنه، وقال ابن عباس رضي الله عنهما: فإن طاعتكم لمحمد صلى الله عليه وسلم طاعتكم لي، فأمّا أن تطيعوني وتعصوا محمدا فلن أقبل منكم. فَإِنْ تَوَلَّوْا أي أعرضوا عن طاعة الله ورسوله فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْكافِرِينَ أي لا يرضى فعلهم ولا يغفر لهم. (خ) عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل أمتي يدخلون الجنة إلّا من أبى قالوا: ومن يأبى؟ قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى». (ق) عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله، ومن يطع الأمير فقد أطاعني، ومن يعص الأمير فقد عصاني». قوله عز وجل.”(سورۃ آل عمران الآیة:31، ج:1، ص:239، ط:دار الكتب العلمية – بيروت)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے

"وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً.”(کتاب السیر، باب المرتد، الفاظ الکفرأنواع، ج:1، ص:695، ط:دار احیاء التراث العربی)

شرح العقائدالنسفیةمیں ہے

"والمعراج الرسول الله له في اليقظة بشخصه الى السماء، ثم الى ماشاء الله تعالى من العلى حق، أي ثابت بالخبرالمشهور، حتى ان منكره يكون مبتدعاً—فالإسراء وهو من المسجد الحرام إلى بيت المقدس قطعي ثبت بالكتاب، والمعراج من الأرض إلى السماء مشهور، ومن السماء إلى الجنة أو العرش أو غير ذلك آحاد.”(ص: 133، ط: دارإحیاث التراث العربي)

الفتاوی الهندیة میں ہے

” ومن أنكر المعراج ينظر إن أنكر الإسراء من مكة إلى بيت المقدس فهو كافر وإن أنكر المعراج من بيت المقدس لا يكفر.”(الباب الخامس في الإمامة الفصل الخامس في بيان من يصلح اماماً لغيره، ج: 1، ص: 84، ط: دار الفكر)

إكفار الملحدين في ضروريات الدين میں ہے

"والحاصل أن من كان من أهل قبلتنا ولم يغل حتى لم يحكم بكفره تصح الصلاة خلفه، وتكره، ولا يجوز خلف منكر الشفاعة، والرؤية، وعذاب القبر، والكرام الكاتبين، لأنه كافر لتواتر هذه الأمور من الشارع عليه السلام ومن قال: لا يرى لعظمته وجلاله، فهو مبتدع.”(النقل فيه عن المحدثين والفقهاء والمتكلمين وكبار المحققين وجم غفير من المصنفين، ص:51، ط:المجلس العلمی/ باکستان)

کفایة المفتی میں ہے

"جو شخص مرزا اور مرزائی جماعت کو کافر نہ سمجھے اور مرزائیوں سے رشتہ ناتا رکھتا ہو اور وفات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل ہو اور معراج جسمانی کا منکر ہو اور شفاعت کا منکر ہو وہ گمراہ اور بد دین ہے اس کی امامت جائز نہیں ، محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی(۱) قال في التنویر و شرحه: ’’ وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بھا فلا یصح الاقتداء به أصلاً الخ(باب الإمامة ۱/۵۶۱ ‘ ط سعید )(کتاب الصلوٰۃ، ج: 3، ص:112، ط: دارالاشاعت)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے

"وهذا مما يحتج به في قبول توبة الزنديق متى أظهر الإسلام; لأن الله تعالى لم يفرق بين الزنديق وغيره إذا أظهر الإسلام; وهو يوجب أن من قال لا إله إلا الله محمد رسول الله، أو قال إني مسلم، أنه يحكم له بحكم الإسلام; لأن قوله تعالى: {لمن ألقى إليكم السلام} إنما معناه: لمن استسلم فأظهر الانقياد لما دعي إليه من الإسلام وإذا قرئ” السلام” فهو إظهار تحية الإسلام، وقد كان ذلك علما لمن أظهر به الدخول في الإسلام; وقال النبي صلى الله عليه وسلم للرجل الذي قتل الرجل الذي قال أسلمت والذي قال لا إله إلا الله: "قتلته بعدما أسلم؟ ” فحكم له بالإسلام بإظهار هذا القول.”(‌‌مطلب البيان من الله تعالى على وجهين، ج:2، ص:310، ط:دار الكتب العلمية بيروت – لبنان)

أحكام القرآن لابن العربي میں ہے

"فجعل الله لسليمان ‌معجزة ‌فهم ‌كلام ‌الطير والبهائم والحشرات؛ وإنما خص الطير لأجل سوق قصة الهدهد بعدها. ألا تراه كيف ذكر قصة النمل معها، وليست من الطير. ولا خلاف عند العلماء في أن الحيوانات كلها لها أفهام وعقول.وقد قال الشافعي: الحمام أعقل الطير. وقد قال علماء الأصوليين: انظروا إلى النملة كيف تقسم كل حبة تدخرها نصفين لئلا ينبت الحب، إلا حب الكزبرة فإنها تقسم الحبة منه على أربع؛ لأنها إذا قسمت بنصفين تنبت، وإذا قسمت بأربعة أنصاف لم تنبت. وهذه من غوامض العلوم عندنا، وأدركتها النمل بخلق الله ذلك لها.” (الآية الثانية قوله تعالى علمنا منطق الطير، ج:3، ص:472، ط:دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان)

تشنيف المسامع بجمع الجوامع میں ہے

"والمعجزة أمر خارق للعادة مقرون بالتحدى مع عدم المعارضة، والتحدى الدعوى.(ش): لما قدم الإرسال بالمعجزات احتاج إلى تعريفها؛ ولأن ظهورها طريق إلى معرفة صدق النبي، وسميت بذلك لما فيها من تعجيز الذين معهم التحدى عن المقابلة بمثلها، قال الإمام في الرسالة النظامية تسميتها بذلك تجوز، فإن المعجز في الحقيقة خارق ولكن سميت بذلك؛ لأنه تبين بها أن من ليس نبيا يعجز عن الأتيان بما يظهره الله تعالى على النبي، فقوله: «أمر» جنس يشمل الخارق وغيره، وإنما عبر به لشموله القول والفعل والإعدام؛ لأن المعجز قد يكون إيجادا وإعداما، كما لو تحدى بأن يعدم جبلاً فينعدم، وكمنع إحراق النار. ولهذا قال بعضهم: فعل أو ما يقوم مقامه؛ لأن العدم ليس بفعل، وقوله: «خارق للعادة، فصل؛ لأنه نزل من الله تعالى منزلة التصديق بالقول، وأما ما لا يكون خارقا للعادة كطلوع الشمس كل يوم، فلا يكون دالاً على الصدق وإلا لادعى كل كاذب أنه نبي، وألبس علينا النبي والمتنبي، وعلم من إطلاقه أنه لا يشترط في الخارق أن يكون معينا.”(الکتاب السابع في الأجتهاد، ج:2، ص:309، ط:دارالکتب العلمية)

كتاب الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين میں ہے

"وأهل البيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلي وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم أجمعين هذا حديث صحيح وقد روي من وجه آخر دون ذكر أم سلمة قلت يارسول الله وقد رواہ أبو سعيد سعد بن مالك بن سنان الخدري صحب النبي صلى الله عليه وسلم وروى عنه الكثير ، روى عنه ابن عمر وجابر وابن عبد الله ،وأبو سلمة وأبو صالح وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة وحميد بن عبد الرحمن وعطاء بن يسار ومات سنة أربع وسبعين وهذا يدخل في رواية الصحابي عن الصحابي وقولها وأهل البيت هؤلاء الذين ذكرتهم إشارة إلى الذين وجدوا في البيت في تلك الحالة وإلا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليهم كلهم ​​أهل البيت والآية نزلت خاصة في هؤلاء المذکورين والله أعلم

المصنف لابن أبي شيبة ميں ہے

– حدثنا يزيد بن هارون، قال: أنا إبراهيم بن عثمان عن الحكم، عن مقسم عن ابن عباس، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعة والوتر .

السنن الكبرى للبيهقي میں ہے

– أنبأ أبو سعد الماليني، ثنا أبو أحمد بن عدي الحافظ، ثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، ثنا منصور بن أبي مزاحم، ثنا أبو شيبة، عن الحكم، عن مقسم عن ابن عباس قال: "کان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة، والوتر

مرقاة المفاتیح میں ہے

"أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعة.”(کتاب الصلاة،)
وفيه أيضا :” وعلم التفسير يؤخذ من أفواه الرجال كأسباب النزول والناسخ والمنسوخ، ومن أقوال الأئمة وتأويلاتهم بالمقاييس العربيةكالحقيقة والمجاز والمجمل والمفصل والعام والخاص، ثم يتكلم على حسب ما يقتضيه أصول الدين، فيئول القسم المحتاج إلىالتأويل على وجه يشهد بصحته ظاهر التنزيل، فمن لم يستجمع هذه الشرائط كان قوله محجورا، وحسبه من الزاجر أنه مخطئ عند الإصابة، فما بعد ما بین المجتهد والمتکلف، فالمجتهد مأجور على الخطأ، والمتكلف مأخوذ بالصواب.”(كتاب العلم، ج: 1، ص: 311، طندار الفكر ، بيروت – لبنان )

شرح العقيدة الطحاوية میں ہے

:قوله: ( والحوض – الذي أكرمه الله تعالى به غيانا لأمته – حق) .ش: الأحاديث الواردة في ذكر الحوض تبلغ حد التواتر، رواها من الصحابة بضع وثلاثون صحابيا، ولقد استقصى طرقها شيخنا الشيخ عماد الدين بن كثير، تغمده الله برحمته، في آخر تاريخه الكبير، المسمى ب ” البداية والنهاية "الإعلام بقواطع الإسلام میں ہے :(ذكر الحوض وصفته، ج 1، ص : 277 ، ط: مؤسسة الرسالة – بيروت )” وأما إنكار الصراط والميزان ونحوهما مما تقول المعتزلة قبحهم الله تعالى بإنكاره فإنه لا كفر به . إذ المذهب الصحيح انهم وسائر المبتدعة لا يكفرون وإنكار الجنة والنار الآن لا كفر به لأن المعتزلة ينكرونها الآن ، وأما إنكار وجودهما يوم القيامة فالكفر به ظاهر لأنه تكذيب للنصوص المتواترة القطعية.”الفصل الأول، ص : 67، ط: دار الكتب العلمية )

تيسير التحرير على كتاب التحرير میں ہے

"حجية السنة سواء كانت مفيدة للفرض أو الواجب أو غيرهما ضرورة دينية) كل من له عقل وتمييز حتى النساء والصبيان يعرف أن من ثبت نبوته صادق فيما يخبر عن الله تعالى ويجب اتباعه ويتوقف العلم بتحققها ) أي السنة بمعنى كونها صادرة عن النبي صلى الله عليه وسلم.”الباب الثالث، فصل: حجية السنة، ج 3، ص : 22، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

الإقتصاد في الإعتقاد للمقدسي میں ہے

والإيمان بعذاب القبر حق واجب، وفرض لازم. رواه عن النبي صلى الله عليه وسلم علي بن أبي طالب 1، وأبو أبوب 2، وزيد بن ثابت 3، وأنس بن مالك 1، وأبو هريرة 2، وأبو بكرة 3، وأبو رافع 4، وعثمان بن أبي العاص 5 وعبد الله بن عباس 1، وجابر بن عبد الله 2، وعائشة 3 زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وأختها أسماء 4، وغيرهم.”

تأويل مختلف الحدیث میں ہے

” وقد أعلمنا الله تعالى في كتابه، أنه يعذب قوما، قبل يوم القيامة؛ إذ يقول: النار يعرضون عليها غدوا وعشيا ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون أشد العذاب 4. ولا يجوز أن يعرض هؤلاء على النار، غدوا وعشيا في الدنيا، ولا في يوم القيامة، لقوله تعالى: ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون أشد العذاب ) . ولأن يوم القيامة، ليس فيها غدو ولا عشي إلا على مجاز في قوله جل وعز: أولهم رزقهم فيها بكرة وعشيا 5 يجوز في ذلك الموضع، ولا يجوز في هذا الموضع. وقد أخبرت به في كتابي المؤلف في تأويل مشكل القرآن” . وقال في موضع آخر، بعد أن ذكر عذاب يوم القيامة: أوإن للذين ظلموا عذايا دون ذلك ولكن أكثرهم لا يعلمون ) 1. قد تتابعت الروايات عن النبي صلى الله عليه وسلم، من جهات كثيرة، بنقل الثقات أنه كان يتعوذ بالله من عذاب القبر.”

شرح العقائد النسفية ہے

وكرامات الأولياء حق، فيظهر الكرامة على طريق نقض العادة للولي من قطع المسافة البعيدة في المدة القليلة، وظهور الطعام والشراب واللباس عند الحاجة
وكرامات الأولياء (حق) والولي هو العارف بالله تعالى وصفاته بحسب ما يمكن المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الاهماك في اللذاتو الشهوات وكرامته ظهور أمر خارق للعادة من قبله غير مقارن لدعوى النبوة، فما لا يكون مقروناً بالإيمان والعمل الصالح يكون استدراجاً، وما يكون مقروناً بدعوى النبوة يكون معجزة، والدليل على حقية الكرامة ما تواتر عن كثير من الصحابة ومن بعدهم بحيث لا يمكن إنكاره خصوصاً الأمر المشترك مطلق خارق للعادة، وإن كانت التفاصيلاً حاداً، وأيضاً الكتاب ناطق بظهورها من مريم ومن صاحب سليمان عليه السلام، وبعد ثبوتالوقوع لا حاجة إلى إثبات الجواز. "كرامات الأولياء حق ، ص: 134، طندار إحياء التراث العربي )

الفقه الأكبر میں ہے

” والآيات ثابتة للأنبياء والكرامات للأولياء حق واما التي تكون لأعدائه مثل ابليس وفرعون والدجال فيما روي الأخبارأنه كان ويكون لهم لا نسميها آيات ولا كرامات ولكن نسميها قضاء حاجاتهم وذلك لأن الله تعالى يقضي حاجات اعدائهاستدراجا لهم وعقوبة لهم فيغترون به ويزدادون طغيانا وكفرا وكله جائز ممكن.

"الفرق بين الفرق میں ہے

آيات الأنبياء وكرامات الأولياء حق، ص: 51، ط: مكتبة الفرقان – الإمارات العربية )” وأعجب بقول البراهمة بابطال النبوات ولم يجسر على اظهار هذا القول خوفا من السيف فانكر اعجاز القرآن في نظمه وانكر ما روى في معجزات نبينا صلى الله عليه وسلم من انشقاق القمر وتسبيح الحصا في يده ونبوع الماء من بين أصابعه ليتوصل بانكار معجزات نبينا عليه السلام الى انكار نبوته ثم انه استثقل احكام شريعة الاسلام في فروعها ولميجسر على اظهار رفعها فابطل الطرق الدالة عليها فانكر لاجل ذلك حجة الاجتماع وحجة القياس في الفروع الشرعية وانكرالحجة من الاخبار التي لا توجب والعلم الضرورى ثم انه علم اجماع الصحابة على الاجتهاد في الفروع الشرعية فذكرهم بمايقرؤه غدا من صحيفة مخازيه وطعن في فتاوى اعلام الصحابة رضى الله عنهم وجميع فرق الامة من فريقي الرأيوالحديث مع الخوارج والشيعة والتجارية واكثر المعتزلة متفقون على تكفير النظام.”
قال ابن عباس وعكرمة ومجاهد الباقيات الصالحات سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله أكبر – وعن أبي سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال استكثروا من الباقيات الصالحات قيل وما هي يا رسول الله قال التسبيح والتهليل والتحميد والتكبير ولا حول ولا قوة الا بالله رواه احمد وابن حبان والحاكم وصححه.”قطب الارشاد میں ہے :الطرق الى الله تعالى بعدد انفاس المخلوقات:(سورة الكهف، الآية : 46، ج 6، ص : 38، ط: مكتبة الرشدية – الباكستان)
” قال الشيخ العارف بالله ابو اسحاق ابراهيم ان الطرق الي الله تعالى كثيرة كالشاذلية والسهروردية والقادرية الي غيرذلك حتي قال بعضهم انها بعدد انفاس الخلائق وهي وان تشعبت فهي واحدة في الحقيقة المطلوب الكل واحد انتهي.”(فصل: أن العلماء من المتكلمين والفقهاء والمحدثين الطرق الى الله تعالى بعدد أنفاس المخلوقات ، ص: 544، طن أمير حمزهکتب خانه )

حاشية الطحطاوي على الدر المختار میں ہے

وهذه الطائفة الناجية قد اجتمعت اليوم في مذاهب أربعة، وهم الحنفيون والشافعيون والمالكيون والحنبليون رحمهم الله.ومن كان خارجا عن هذه الأربعة فى هذا الزمان فهو من أهل البدعة والنار.”(كتاب الذبائح، ج 4، ص : 153، ط: المكتبة العربية كونته )

عقد الجيد في احكام الاجتهاد والتقليد میں ہے

” اعلم أن في الأخذ هذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة وفي الإعراض عنها كلها مفسدة كبيرة، ونحن نبين ذلك بوجوه أحدها : أن الأمة اجتمعت على أن يعتمدوا على السلف في معرفة الشريعة، فالتابعون اعتمدوا في ذلك على الصحابة، وتبع التابعين اعتمدوا على التابعين، وهكذا في كل طبقة اعتمد العلماء على من قبلهم، والعقل يدل على حسن ذلك وثانيها : قال رسول الله ﷺ اتبعوا السواد الأعظم ولما اندرست المذاهب الحقة – إلا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعاً للسواد الأعظم والخروج عنها خروجاً عن السواد الأعظم وثالثها : أن الزمان لما طال وبعد العهد، وضيعت الأمانات، لم يجز أن يعتمد على أقوال علماء السوء من القضاة الجورة والمفتين التابعين لأهوائهم حتى ينسبوا ما يقولون إلى بعض من اشتهرمن السلف بالصدق والديانة والأمانة إما صريحاً أو دلالة.”باب تأكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة، والتشديد في تركها والخروج عنها، ص: 40، ط: دار الكتب باكستان)

حجة الله البالغة میں ہے

"أما الصحيحان :فقد اتفق المحدثون : على أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيح بالقطع وأنهما متواتران إلى مصنفيها وأنه كل منمحون أمرهما فهو مبتدع ، متبع غير سبيل المؤمنين .”(طبقات كتب الحديث، ج: 1، ص: 443، ط: دار ابن كثير )

فتح الباری میں ہے

” قوله: (حتى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخيل إليه أنه كان يفعل الشيء وما فعله) قال المازري: أنكر المبتدعة هذا الحديث، وزعموا أنه يحط منصب النبوة ويشكك فيها، قالوا: وكل ما أدى إلى ذلك فهو باطل، وزعموا أن تجويز هذا يعدم الثقة بما شرعوه من الشرائع إذ يحتمل على هذا أن يخيل إليه أنه يرى جبريل وليس هو ثم، وأنه يوحي إليه بشيء ولم يوح إليه بشيء، قال المازري: وهذا كله مردود، لأن الدليل قد قام على صدق النبي صلى الله عليه وسلم فيما يبلغه عن الله تعالى وعلى عصمته في التبليغ والمعجزات شاهدات بتصديقه، فتجويز ما قام الدليل على خلافه باطل. وأما ما يتعلق ببعض أمور الدنيا التي لم يبعث لأجلها، ولا كانت الرسالة من أجلها فهو في ذلك عرضة لما يعترض البشركالأمراض، فغير بعيد أن يخيل إليه في أمر من أمور الدنيا ما لا حقيقة له مع عصمته عن مثل ذلك في أمور الدين.”باب السحر وقول الله تعالى: (ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر، ج: 10، 226، ط:دار المعرفة)
وفي تفسير البغوي وغيره من التفاسير :”والمشهور: أنه النمل الصغير. وقال الشعبي : كانت تلك النملة ذات جناحين. وقيل: كانت نملة عرجاء فنادت، قالت نملة يا أنها النمل ادخلوا مساكنكم، ولم تقل ادخلن لأنه لما جعل لهم قولا كالآدميين خوطبوا بخطاب الآدميين” – والهدهد:طائر معروف.”(ج: 3، ص: 496، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے

” ويأثم بارتكابه كما يأثم بترك الواجب، ومثله السنة المؤكدة وفي الزيلعي في بحث حرمة الخيل: القريب من الحرام ماتعلق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار، بل العتاب كترك السنة المؤكدة، فإنه لا يتعلق به عقوبة النار، ولكن يتعلق به الحرمان عن شفاعة النبي المختار صلى الله عليه وسلم الحديث من ترك سنتي لم ينل شفاعتي فترك السنةالمؤكدة قريب من الحرام، وليس بحرام اهـ

وفي الرد

(قوله وفي الزيلعي إلخ) بيان للمراد من الإثم في قوله ويأتم بارتكابه إلى؛ وما في الزيلعي موافق لما في التلويخحيث قال: معنى القرب إلى الحرمة أنه يتعلق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار وترك السنة المؤكدة قريب من الحرمة يستحق حرمان الشفاعة اهـ ومقتضاه أن ترك السنة المؤكدة مكروه تحريما لجعله قريبا من الحرام، والمراد سنن الهدى كالجماعة والأذان والإقامة فإن تاركها مضلل ملوم كما في التحرير والمراد الترك على وجه الإصرار بلا عذر ولذا يقاتل المجمعون على تركها لأنها من أعلام الدين، فالإصرار على تركها استخفاف بالدين فيقاتلون على ذلك ذكره فيالمبسوط.”(كتاب الحضر و الإباحة، ج 9، ص: 558، رشيديه)

فتح الباری میں ہے

” وقد تواردت الآثار عن النبي صلى الله عليه وسلم بالترغيب في الدعاء والحث عليه كحديث أبي هريرة رفعه: ليس شيء أكرم على الله من الدعاء. أخرجه الترمذي وابن ماجه وصححه ابن حبان والحاكم وحديثه رفعه: من لم يسأل الله يغضب عليه، أخرجه أحمد والبخاري في الأدب المفرد والترمذي وابن ماجه والبزار، والحاكم، كلهم من رواية أبي صالح الجوزي بضم الخاء المعجمة وسكون الواو، ثم زاي عنه، وهذا الخوزي مختلف فيه، ضعفه ابن معين، وقواه أبو زرعة. وظن الحافظ ابن كثير أنه أبو صالح السمان، فجزم بأن أحمد تفرد بتخريجه، وليس كما قال، فقد جزم شيخه المزي في الأطراف بما قلته، ووقع في رواية البزار، والحاكم، عن أبي صالح الحوزي سمعت أبا هريرة قال الطيبي: معنى الحديث أن من لم يسأل الله يبغضه، والمبغوض مغضوب عليه، والله يجب أن يسأل انتهى، ويؤيده حديث ابن مسعود رفعه: سلوا الله من فضله، فإن الله يجب أن يسأل. أخرجه الترمذي، وله من حديث ابن عمر رفعه: إن الدعاء ينفع مما نزل، ومما لم ينزل، فعليكم عباد الله بالدعاء. وفي سنده لين، وقد صححه مع ذلك الحاكم. وأخرج الطبراني في الدعاء بسند رجاله ثقاتإلا أن فيه عنعنة بقية عن عائشة مرفوعا: إن الله يحب الملحين في الدعاء.”(كتاب الدعوات، ج 11، ص: 95، دار المعرفة)

مرقاة المفاتیح میں ہے

– وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة و الحسنة بعشر أمثالها، لا أقول الم حرف ألف حرف ولام حرف وميم حرف ” رواه الترمذي و الدارمي، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح غريب إسنادا
وظاهره أن المعتبر في الحساب الحروف المكتوبة لا الملفوظة، وفي رواية للبيهقي ( لا أقول بسم الله ولكن باء وسين وميم، ولا أقول الم ولكن الألف واللام والميم .”روضة الناظر وجنة المناظر میں ہے :كتاب فضائل القرآن، ج 4، ص: 1471، ط: دار الفكر، بيروت – لبنان )”
والإجماع حجة قاطعة عند الجمهور وقال النظام: ليس بحجة وقال: "الإجماع: كل قول قامت حجته” ليدفع عن نفسه شناعة قوله، وهذا خلاف اللغة والعرف لنا دليلان أحدهما : قول الله تعالى : ومَن يُشاقِقِ الرَّسُولُ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جهنم وساءت مصيرًا ) وهذا يوجب اتباع سبيل المؤمنين، ويحرم مخالفتهم ، الدليل الثاني: من السنة:قول النبي صلى الله عليه وسلم "لا تجتمع أمتي على ضلالة” . وروي: "لا تجتمع على خطأ”. وفي لفظ "لم يكن الله ليجمع هذه الأمة على خطأ” وقال: "ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن، وما رأوه قبيحا فهو عند الله قبيح” وقال:” من فارق الجماعة شبرا فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه” و "من فارق الجماعة مات ميتة جاهلية”. وقال: "عليكم بالسواد الأعظم” وقال: "ثلاث لا يغل عليهن قلب المسلم إخلاص العمل لله و المناصحة لولاة الأمر، ولزوم جماعة المسلمين” ونهى عن الشذوذ 1 وقال: "من شد شد فلي النار” وقال: "لا تزال طائفة من أمتى على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله” وقال: "من أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة؛ فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد” … أن هذه الأحاديث لم تزل مشهورة بين الصحابة والتابعين يتمسكون بها في إثبات الإجماع، ولا يظهر فيه أحدخلافا إلى زمن النظام.”صحيح البخاری میں ہے :الأدلة على حجية الإجماع، ج 1، ص: 388، ط: مؤسسة الريان)
3681 – "حدثني فروة بن أبي المغراء: حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة، فنزلنا في بني الحارث بن خزرج. فوعكت فتمزق شعري فوفى جميمة، فأتتني أمي أم رومان، وإني لفي أرجوحة، ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها. لا أدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئا من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه.وأنا يومئذ بنت تسع سنين.”(باب: ترويج النبي صلى الله عليه وسلم عائشة، وقدومها المدينة، وبنائه بها ، ج 3 ، ص: 1414، ط: دار ابن كثير)

المستدرك على الصحيحين میں ہے

– أخبرنا إسماعيل بن محمد بن إسماعيل الفقيه بالري، ثنا أبو حاتم الرازي، ثنا نوح بن يزيد المؤدب، ثنا إبراهيم بنسعد، عن محمد بن إسحاق، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «أرادت أمي أن تسمننيالدخولي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم أقبل عليها بشيء مما تريد، حتى أطعمتني القثاء والرطب، فسمنتعليه، كأحسن السمن هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ولم يخرجاه "التعليق – من تلخيص الذهبي ] 2756 – على شرط مسلم.”(كتاب النكاح، ج : 2، ص: 202، ط:دار الكتب العلمية – بيروت)

المبسوط للسرخسي میں ہے

” وأدنى المدة في حق الغلام اثنا عشر سنة، وفي حق الجارية تسع سنين.”كتاب الطلاق باب الرجعة، ج 6، ص : 53، ط: دار المعرفة – بيروت، لبنان)

صحیح البخاری میں ہے

فأوحى الله فيما أوحى إليه خمسين صلاة على أمتك كل يوم وليلة، ثم هبط حتى بلغ موسى، فاحتبسه موسى، فقال: يا محمد، ماذا عهد إليك ربك ؟ قال: عهد إلي خمسين صلاة كل يوم وليلة، قال: إن أمتك لا تستطيع ذلك، فارجع فليخفف عنك ربك وعنهم، فالتفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى جبريل كأنه يستشيره في ذلك، فأشار إليه جبريل: أن نعم إن شئت، فعلا به إلى الجبار، فقال وهو مكانه يا رب خفف عنا فإن أمتي لا تستطيع هذا، فوضع عنه عشر صلوات ثم رجع إلى موسى، فاحتبسه فلم يزل يردده موسى إلى ربه حتى صارت إلى خمس صلوات، ثم احتبسه موسى عند الخمس، فقال: يا محمد والله لقد راودت بني إسرائيل قومي على أدنى من هذا فضعفوا فتركوه، فأمتك أضعف أجسادا وقلوبا وأبدانا وأبصارا وأسماعا فارجع فليخفف عنك ربك، كل ذلك يلتفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى جبريل ليشير عليه، ولا يكره ذلك جبريل، فرفعه عند الخامسة، فقال: يا رب إن أمتي ضعفاء أجسادهم وقلوهم وأسماعهم وأبصارهم وأبدانهم مخفف عنا، فقال الجبار يا محمد قال: لبيك وسعديك، قال: إنه لا يبدل القول لدي، كما فرضته عليك في أم الكتاب، قال: فكل حسنة بعشر أمثالها، فهي خمسون في أم الكتاب، وهي خمس عليك”.كتاب التوحيد، باب قول الله وكلم الله موسى تكليما ، ج 6، ص: 2730، ط: دار ابن كثير، دار اليمامة )

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے

أصل وجوب الصلاة كان في مكة في أول الإسلام؛ لوجود الآيات المكية التي نزلت في بداية الرسالة تحث عليها.” وأما الصلوات الخمس بالصورة المعهودة فإنها فرضت ليلة الإسراء والمعراج على خلاف بينهم في تحديد زمنه. 4 – وقدثبتت فرضية الصلوات الخمس بالكتاب والسنة والإجماع.”(فرض الصلوات الخمس وعدد ركعاتها، ج : 27 ، ص : 52، ط: دار السلاسل – الكويت )

سنن ابن ماجہ میں ہے

3125 – "حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا معاذ بن معاذ عن ابن عون، قال أنبأنا أبو رملة، عن مخنف بن سليم، قال: كنا وقوفا عند النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة فقال: «يا أنها الناس إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية وعتيرة، أتدرون ما العتيرة ؟ هي التي يسميها الناس الرجبية.”كتاب الأضاحي، باب الأضاحي، واجبة هي أم لا،

بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے

"فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين، أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا یضحي من أمته، فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام. فالجواب أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب، وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم.” کتاب الضحايا، باب في الشاة يضحى بها عن جماعة،

صحیح البخاری میں ہے

[38] حدثنا ابن سلام، قال: أخبرنا محمد بن فضيل، قال: حدثنا يحيى بن سعيد عن أبي سلمة، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه”.
حدثنا عبد الله بن يوسف أخبرنا مالك، عن ابن شهاب عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه )
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن صام رمضان إيمان و احتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه.”

المستدرك على الصحيحين میں ہے

"حدثناه أبو علي الحسين بن علي الحافظ إملاء من أصل كتابه، حدثنا أحمد بن داود بن عبد الغفار بمصر. حدثنا إسحاق بن كامل، حدثنا إدريس بن يحيى عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبيب، عن نافع، عن ابن عمر قال: وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب إلى بلاد الحبشة، فلما قدم اعتنقه وقبل بين عينيه، ثم قال: "ألا أهب لك، ألا أبشرك، ألا أمنحك، ألا أتحفك ؟ "، قال: نعم يا رسول الله، قال: "تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بالحمد وسورة، ثم تقول بعد القراءة وأنت قائم قبل الركوع: سبحان الله والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله، خمس عشرة مرة، ثم تركع فتقولهن عشرا ثم ترفع رأسك من الركوع، فتقولهن عشراء ثم تسجد فتقولهن عشرا ثم تقوم فتقولهن عشرا تمام هذه الركعة قبل أن تبتدئ بالركعة الثانية، تفعل في الثلاث ركعات كما وصفت لك حتى تتم أربع ركعات”. ھذا إسناد صحيح لا غبار عليه. ومما يستدل به على صحة هذا الحديث استعمال الأئمة من أتباع التابعين وإلى عصرنا ھذا إياه، ومواظبتهم عليه، وتعليمهن الناس، منهم عبد الله المبارك.” ، من كتاب صلاة التطوع، ج: 2، ص: 142، طندار الرسالة العالمية)

بذل المجهود میں ہے

” ومن خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه الدين، أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانيته، والبعد عنه، ورب فجر حسن خير من مخالطة مؤذية —– فإن هجرة أهل الأهواء والبدعة دائمة على مر الأوقات والأزمان ما لم يظهر من التوبة والرجوع إلى الحق.” کتاب السنة، باب مجانبة أهل الأهواء وبغضهم، ج 13، ص 10، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي )

تفسير النسفي میں ہے

” وقال سهل من صحح ايمانه وأخاص توحيده فإنه لا يأنس بمبتدع ولا يجالسه ويظهر له من نفسه العداوة ومن داهنمبتدعاً سلبه الله حلاوة السنن ومن أجاب مبتدعاً لطلب عز الدنيا أو غناها أذله الله بذلك العزو أفقر بذلك الغنى ومنضحك إلى مبتدع نزع الله نور الإيمان من قلبه .”حقيقة السنة والبدعة میں ہے :(سورة المجادلة ، آية : 22 ، ج 3 ، ص : 453، ط: دار الكلم الطيب، بيروت)”
وقال أبو الحسن البغوي: قد مضت الصحابة والتابعون وأتباعهم وعلماء السنة على معاداة أهل البدع و مهاجرتهم، وقال أبو قلابة: لا تجالسوا أصحاب الأهواء، فإني لا أمن من أن يغمسوكم في ضلالهم ويلبسوا عليكم بعض ما تعرفون.”فصل في ذم البدع والأهواء، ص: 84، ط: مطابع الرشيد.

– مرقاة المفاتیح میں ہے

– ” ( عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لرجل أن محجر ) بضم الجيمأخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوةالإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة اهـ. وفيه أنه حينئذ يحبهجرانه .”( كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه في التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج 8، ص: 3146، ط: دار الفكر، بيروت -لبنان

وفيه أيضا

273 – وعن ابن سيرين ) : وهو محمد بن سيرين، مولى أنس بن مالك، وهو من مشاهير التابعين، وهو غير منصرف للعلمية، والمزيدتين على مذهب أبي علي في اعتبار مجرد الزائدتين (قال: إن هذا العلم دين : اللام للعهد، وهو ما جاء به النبي صلى الله عليه وسلم لتعليم الخلق من الكتاب والسنة وهما أصول الدين فانظروا عمن تأخذون دينكم) : المرادالأخذ من العدول والثقات.”7

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے

(ويكره) تنزيها (إمامة عبد ) ولو معتقا قهستاني ( ومبتدع) أي صاحب بدعة وهي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندة بل بنوع شبهة

وفي الرد

(قوله وهي اعتقاد إلخ ) عزاه هذا التعريف في هامش الخزائن إلى الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا يخفىأن الاعتقاد يشمل ما كان معه عمل أو لا، فإن من تدين يعمل لا بد أن يعتقده كمسح الشيعة على الرجلين وإنكارهمالمسح على الخفين وذلك، وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول اللهصلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اهـ فافهم(قوله لا بمعاندة) أما لو كان معاندا للأدلة القطعية التي لا شبهة له فيها أصلا كإنكار الحشر أو حدوث العالم ونحو ذلك.فهو كافر قطعا (قوله بل بنوع شبهة ) أي وإن كانت فاسدة كقول منكر الرؤية بأنه تعالى لا يرى الجلاله وعظمته.”كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج : 2، ص: 356، ط: رشيديه )

فقط والله أعلم

نوٹ : یہاں تک اس استفتاء اور اس کے جواب کا اختتام ہو جاتا ہے ، اس کے نقل کرنے میں احتیاط برتی گئی ہے ، تاہم قارئین اگر قرآن ، حدیث یا فقہ کی عربی نصوص نقل کرنے میں بشریت کے ناطے کوئی غلطی پائیں تو اسے سہو پر محمول کریں ، اور ممکن ہو تو ادارے کو مطلع فرما دیں۔

فتوے سے رجوع ؟

نوٹ : جامعہ بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ سے اس جواب کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہٹا دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جواب آنے پر مفتی منیر شاکر نے بنوری ٹاؤن سے رابطہ کر کے استفتاء میں مذکور اکثر شقوں کو الزامات قرار دیتے ہوئے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ جب مفتیان کرام نے فریق دوم مفتی ندیم وغیرہ سے رابطہ کیا تو مفتی ندیم محمودی نے تمام شقوں کے ثبوت مہیا کرنے کا وعدہ کیا ، اس پر دار الافتاء نے بطورِ احتیاط عارضی طور پر مذکورہ فتوے کو ڈیلیٹ کیا ، گویا اب یہ فتویٰ موقوف ہے ، متعلقہ کلپس کا معائنہ کرکے علماء فیصلہ کریں گے کہ فتویٰ پھر سے اپلوڈ کرنا ہے یا اس سے رجوع کرنا ہے۔

واضح رہے کہ دار الافتاء سے خفیہ رابطے کے بعد مفتی منیر شاکر نے اس فتوے کے بارے میں پبلک گفتگو بھی کی ، جس میں انھوں نے استفتاء میں موجود اشیاء کو محض الزامات قرار دیتے ہوئے ان سے برأت کا اعلان کیا اور ساتھ میں کچھ خاص وضاحتیں بھی کیں جن کی قدرے تفصیل آپ یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

جواب الجواب

دوسری طرف مفتی منیر شاکر کے اس وضاحتی گفتگو پر مفتی ندیم محمودی نے بطور جواب الجواب گفتگو کی ہے جس کو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا صارفین اس حوالے اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ایک طرف فریقین کے فالورز ہیں جو اپنے ممدوح کی حمایت میں اور دوسرے فریق کی تردید میں لکھ اور بول رہے ہیں لیکن ساتھ ہی پختون تحفظ موومنٹ یا پی ٹی ایم کے کارکنان بھی اس میدان میں سرگرم رہتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق مفتی منیر شاکر منظور پشتین سے ملاقات اور ان کی تحریکی کاموں کی تائید کر کے اپنی فالونگ میں پختون تحفظ موومنٹ کے کارکنان کو شامل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ، اس لیے اس موقع پر پی ٹی ایم کارکنان مفتی منیر شاکر کو کھل کر ڈیفینڈ کر رہے ہیں۔

ان کارکنان کا مدعا ہے کہ مذکورہ مفتیان نے صرف مقتدر حلقوں کے اشارے پر مفتی منیر شاکر کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے گویا مفتی شاکر کو ایک ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔

مفتی منیر شاکر کے خلاف مذکورہ فتویٰ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

This Post Has One Comment

جواب دیں