معروفِ زمانہ مضاربہ سکینڈل والے مفتی احسان الحق کئی سال اغوا، گرفتار یا روپوش رہنے کے بعد اچانک منظرِ عام پر آ چکے ییں اور میڈیا سے ہوش ربا انکشافات کر رہے ہیں۔
مفتی احسان الحق کے مطابق مضاربہ کے تقریباً تیرہ ارب روپے خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کے بااثر جمال خاندان بالخصوص رئیس خان کے بیٹے نثار جمال خان کے پاس موجود ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مفتی احسان نے شروع میں مفتی اسامہ کی کمپنی ” الیگزر گروپ “ میں کچھ انوسمنٹ کی تھی ، پھر نثار اینڈ بردرز سے ملاقات ہوئی جو اسپیئر پارٹس کا کام کرتے تھے ، ان کے ساتھ ایک کروڑ سے کام شروع کیا گیا ، جو رفتہ رفتہ نو ارب روپے تک کی سرمایہ کاری تک پہنچ گیا۔
سرمایہ زیادہ ہو جانے کی وجہ سے نثار اینڈ بردرز نے مفتی احسان کو تھائی لینڈ میں ڈائمنڈ کے کام کے لیے ایگری کیا ، تھائی لینڈ میں مفتی احسان الحق کے نام بینک اکاؤنٹ کھولے گئے ، اس دوران مفتی احسان ادارہِ احتساب یعنی نیب کے شکنجے میں آ گئے اور نثار جمال خان بیرون ملک فرار ہو گئے۔
مفتی احسان الحق کے بقول اس وقت تک سرمایہ کاری کی رقم تیرہ ارب تک پہنچ چکی تھی ، ان کے بقول نیب کی طرف سے گرفتاری کے بعد آج تک وہ ایک ہی موقف پر قائم ہیں ، کوئی بھی غیر جانبدار منصف وہ تمام ایویڈنس دیکھ سکتا ہے۔
کیا نثار کے ساتھ اس رقم کے لین دین کا کوئی پروف موجود ہے ؟ اس سوال کا جواب مفتی احسان نے نفی میں دیا کہ میرا دراصل ان لوگوں کے ساتھ حد درجہ اعتماد اور گھر تک کی بھائی بندی کا تعلق تھا ، اس لیے کسی سٹام یا ایگریمنٹ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
یاد رہے کہ مفتی احسان الحق نے جن لوگوں پر تیرہ ارب کی خطیر رقم کا مبینہ الزام عائد کیا ہے وہ لوگ مفتی احسان سے ملاقات تک بلکہ جاننے تک کے انکاری ہیں، تاہم کچھ غیر مصدقہ تفصیلات کے مطابق نثار جمال نے مفتی احسان سے جزوی اتفاق اور اختلاف کے ساتھ ساتھ کسی خالد عزیزی نامی افغانی باشندے کا اس معاملے میں ملوث ہونے کا ذکر کیا اور مفتی احسان سے کہا کہ آپ عزیزی نامی اس کردار کا اور متعلقہ ڈیٹیلز کا ذکر کیوں نہیں کر رہے ؟ سارا گناہ ہمارے سر کیوں ڈال رہے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں کہ سن دو ہزار تیرہ سے اب تک دس سال سے زائد عرصہ بیت گیا ، آپ ابھی تک خاموش کیوں تھے ؟ آپ نے پہلے میڈیا پر آکر نثار جمال وغیرہ کرداروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیوں نہیں کیا ؟ مفتی احسان کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار تیرہ میں نیب کے شکنجوں میں آنے اور دو ہزار اٹھارہ میں سزا پانے کے بعد اور اس دوران بھی جس قدر ہمارا میڈیا ٹرائل ہوا ، ہم سے میڈیا کے سامنے آنے اور متاثرین کا سامنا کرنے کی سکت ہی نہ تھی ، بڑی مشکل سے سنبھلنے کے بعد اب ہم عوام کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ مفتی احسان الحق پاکستان کی حالیہ تاریخ کے ناقابل فراموش اربوں روپے والے مضاربہ سکینڈل کے مرکزی کرداروں میں سے ہیں جن کے متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
دوسری طرف مفتی احسان کے منظرِ عام پر آنے کے ساتھ ہی مضاربت کے متاثرین میں ایک لہر سی پیدا ہو گئی ہے۔ عوام الناس جہاں ایک طرف غریب عوام کی رقم ابھی تک ریکور نہ کروا سکنے پر حیران ہیں، وہیں یہ مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے کہ جلد از جلد فریقین کو عوامی جرگہ کی شکل میں بیٹھا کہ حق و سچ واضح کیا جائے اور حقدار تک حق پہنچایا جائے۔
واضح رہے کہ مفتی احسان الحق کے ان بیانات کے بعد مبینہ طور پر انہیں دھمکیاں ملی ہیں ، مفتی احسان اپنے حوالے سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو فریق مخالف پر تمام تر ذمہ داری عائد ہو گی۔