پشتون قومی جرگہ تیرہ اکتوبر کی شام متفقہ اعلامیہ کے اجراء پر اختتام پذیر ہوا، جس میں مسلح قوتوں کی بے دخلی ، قومی وسائل ، بجلی کے نرخ ، ڈیورنڈ لائن ، آئی ڈی پیز ، بلاک شناختی کارڈ سمیت اہم مسائل ایڈریس کیے گئے ہیں۔
اعلامیے کے مطابق افواجِ پاکستان سمیت تمام مسلح تنظیموں کو دو مہینوں کے اندر اندر پشتون علاقوں سے نکلنا ہو گا ، بصورتِ دیگر ہر علاقے کے تین تین ہزار نوجوانوں پر مشتمل دو لاکھ چالیس ہزار افراد کی غیر مسلح فوج پر امن طریقے سے اس قضیے کا حل نکالے گی۔
اعلامیے کے مطابق قومی جرگہ کی طرف سے مقرر کردہ اَسی افراد پر مشتمل کمیٹی چمن سے لے کر چترال کوہستان تک دورے کرے گی اور معائنہ کرے گی کہ جن قومی وسائل سے پشتون علاقے کے باشندوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اسے تو برقرار رکھا جائے گا لیکن جن وسائل سے علاقائی فوائد نہیں مل رہے ، جرگہ اسے غاصبین سے چھڑانے کے لیے فوری طور پر وہاں موجود کام بند کرا دے گی۔
اعلامیے کے مطابق یہ جرگہ پشتون وطن کے شہداء ، لاپتہ افراد اور مقبوضہ زمینوں کی وکالت کرتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے دائر کرے گا اور کیسوں کی مکمل پیروی کرے گا۔
مفتی منیر شاکر کے خلاف فتویٰ جاری
اعلامیے کے مطابق قبائلی علاقوں میں بجلی بالکل مفت جبکہ دیگر پشتون علاقوں میں پانچ روپے فی یونٹ کے نرخ سے ملے گی ، بصورتِ دیگر بجلی ترسیل کے ذرائع کھمبوں ، تاروں وغیرہ کو پشتون مٹی سے نہیں گزرنے دیا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق افغانستان کے ساتھ تمام ڈیورنڈ بارڈرز بشمول چمن و طورخم ، پر آمد و رفت اور تجارتی لین دین پاسپورٹ اور ویزہ کے بغیر اسی پرانے طریقے سے کیا جائے گا جو سن دو ہزار دس سے پہلے تھا اور جس کی ابتداء سن اٹھارہ سو ترانوے سے ہوئی تھی، بصورتِ دیگر بارڈرز پر موجود تمام کسٹم دفاتر کو یہ جرگہ بند کر دے گا۔
اعلامیے کے مطابق پشتون قومی جرگہ پختونخوا میں عوام کے مابین لسانی یا فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں کے خاتمے کے لیے تمام اضلاع بالخصوص ضلع کرم کا دورے کر کے امن یقینی بنائے گا۔
اعلامیے کے مطابق بھتہ خوری کا مکمل صفایا کیا جائے گا ، خواہ وہ بھتہ خور مسلح ہو یا غیر مسلح ، پورا جرگہ متاثرہ فریق کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
اعلامیے کے مطابق آئی ڈی پیز میں سے جو خاندان اپنے علاقے واپس جانا چاہے ، وہ اپنی مرضی کا دن جرگے کو پیش کرے ، یہ جرگہ اسے اپنے علاقے پہنچائے گا۔
اعلامیے کے مطابق پنجاب ، سندھ اور فیڈرل علاقوں میں زیرِ تعلیم طلبہ ، مزدوروں یا رہائش پذیر پختونوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوا تو سارا جرگہ اس کے لیے میدان میں اترے گا۔
اعلامیے کے مطابق ملک کا موجودہ عمرانی معاہدہ یعنی آئین اب قابلِ عمل نہیں رہا ، لہذا ضروری ہے کہ نیا دستور مرتب کرکے اقوام سے منظوری کے بعد نافذ کیا جائے۔
اعلامیے کے مطابق جرگہ ضروری سمجھتا ہے کہ قبائلی علاقوں کے لیے اعلان کردہ ایوارڈوں اور امداد دی جائے ، موجودہ آئین کے مطابق بجلی کے ابھی تک کے مقروض منافع پختونخوا کو دئے جائیں ، قدرتی گیس اور انڈس واٹر سے متعلق حقوق صوبے کو واپس کئے جائیں۔
اعلامیے کے مطابق افواجِ پاکستان کے وہ افراد جنھوں نے موجودہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت کی ، جرگہ ضروری سمجھتا ہے کہ ان کے خلاف آرٹیکل سیکس لاگو کیا جائے اور ملٹری کورٹس کو بھی ختم کیا جائے۔
اعلامیے کے مطابق جرگہ سمجھتا ہے کہ بلاک شناختی کارڈوں کو فوری فعال کیا جانا ضروری ہے ، بصورتِ دیگر پوری ملت مل کر اس حوالے سے نیا فیصلہ کرے گی جو کہ فعال شناختی کارڈز کو بھی واپس کر دینے کی صورت میں بھی ممکن ہے۔
اعلامیے کے مطابق جرگہ علی وزیر سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی ضروری سمجھتا ہے ، بالخصوص اس جرگہ کے انعقاد کی بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہونی چاہیے ، بصورتِ دیگر جرگہ سخت ترین اور غیر متوقع فیصلے کرے گا۔
اعلامیے کے مطابق جرگے کی طرف سے خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لیے قتل کے بدلے کسی خاتون پر صلح کرنے کی فرسودہ روایت کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے اور بر وطن یعنی افغانستان میں بھی خواتین کو تعلیم کاحق دینے کی التجا کی جاتی ہے۔
اعلامیے کے مطابق بیس اکتوبر دو ہزار چوبیس کو تمام اضلاع کے صدر مقام میں تمام قبائل اور پارٹیوں کے پشتون عوام نکل کر اپنے اتحاد ، یک جہتی ، ظلم و جبر کے خلاف اور ان مطالبات کے حوالے سے متحرک ہونے کا اظہار کریں گے۔
اعلامیے کے مطابق یہ جرگہ پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور جو کہ سٹیج پر موجود ہیں سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان آئینی حقوق کے لیے صوبائی اسمبلی سے بل پاس کرائیں اور گورنر بھی مقدور بھر تعاون کریں اور حالیہ شہداء کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے جوڈیشل کمیشن کا بھی اعلان کریں۔
واضح رہے کہ مذکورہ جرگہ نے کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ پر وفاقی حکومت کی طرف سے لگنے والی پابندی ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا اور آخر میں شرکاء سے حلف لیا۔